بلوچ لانگ مارچ،300 افراد گرفتار،مذاکراتی کمیٹی قائم،آئی جی سے رپورٹ طلب

0
255
baloch

بلوچ لانگ مارچ کے حوالے سے اسلام آباد پولیس نے سپشل رپورٹ جاری کر دی

رپورٹ میں کہا گیا کہ 20 دسمبر 5 بجے معلوم ہوا کہ چیئرپرسن بلوچ یکجہتی کمیٹی ڈاکٹر مہارنگ بلوچ کی قیادت میں کچھ مظاہرین پشاور ٹول پلازہ پر جمع ہیں ،مظاہرین 08 گاڑیوں پر 12 بچوں اور 45 خواتین سمیت تقریباً 250 مظاہرین تھے، ایس ایس پی اور ایس پی صدر نے ان کے ساتھ مذاکرات کیے،مظاہرین کو H-9 سیکٹر میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے جگہ کی پیشکش کی،مظاہرین نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا،دوسرے آپشن کے طور پر F-9 پارک میں رہنے کی پیشکش بھی کی گئی،مظاہرین زبردستی اسلام آباد کے دائرہ اختیار میں داخل ہوئے،مظاہرین نے 26 نمبر چونگی پر سڑکیں بلاک کرنا شروع کر دیں،اسی دوران تقریباً 250 مظاہرین، جن میں سے کچھ لاٹھیوں سے لیس تھے، نیشنل پریس کلب کے سامنے جمع ہوئے اور دونوں طرف کی سڑکیں بند کر دیں،پولیس نے مظاہرین کو آگاہ کیا کہ ریڈ زون میں احتجاج پر پابندی عائد ہے،

پریس کلب کے باہر مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور الزام پولیس پر عائد کیا،پولیس نے مجموعی طور پر 300 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں 5 خواتین شامل ہیں،مظاہرین نے قانون کو ہاتھ میں اور ریاست اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی،

جو لوگ بلوچستان سے آئے ان کی طرف سے کوئی شرانگیزی نہیں کی گئی لیکن کچھ مقامی افراد نے صورتحال خراب کرنے کی کوشش کی، فواد حسن فواد
حکومت کی جانب سے بنائی گئی مذاکراتی کمیٹی نے مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس کی ہے، نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ کل مظاہرین اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوئے، وزیر اعظم نے مزاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دی، ہم نے مزاکرات کیے بچوں اور عورتوں سے بھی ملے،

فواد حسن فواد کا کہنا تھا کہ جب مظاہرین اسلام آباد پہنچے تو انتظامیہ نے ان سے رابطہ کیا، پولیس نے مظاہرین کو دو جگہوں کی آفر کی،پریس کلب کے باہر کئی خواتین تئیس دنوں سے بیٹھی ہیں، پریس کلب کے باہر بیٹھی خواتین کو انتظامیہ نے کچھ نہیں کہا،مظاہرین اور پولیس کے درمیان کلیش ہوا، مجبورا پولیس کو مظاہرین کو گرفتار کرنا پڑا،بڑے نقصان سے بچنے کیلئے ریاست کو مجبور کچھ اقدامات کرنے پڑتے ہیں،صرف وہ لوگ تحویل میں ہیں جن کی شناخت نہیں ہوئی،کچھ مقامی افراد نے صورتحال خراب کرنے کی کوشش کی ، چہرہ ڈھانپ کر کچھ لوگوں نے پتھراو کیا جس کے بعد صورتحال خراب ہوئی ، جو لوگ بلوچستان سے آئے تھے ان میں سے کسی نے شرانگیزی نہیں کی ،احتجاج روکنا مقصد نہیں تھا ، احتجاج تو 23دن سے جاری ہے ،جولوگ بلوچستان سے آ رہے تھے ان میں سے کسی نے کوئی تشدد نہیں کیا ،کچھ لوگوں کی شناخت اور تحقیقات کا عمل جاری ہے،وزارتی کمیٹی نے قابل شناخت تمام افراد رہا کردئیے ۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد،بلوچ مظاہرین کے لیے سیشن عدالت سے بڑی خبر،بلوچ ہیومن ایکٹویسٹ مہارنگ بلوچ سمیت 33 بلوچ مظاہرین کو عدالت پیش کردیا گیا،جوڈیشل مجسٹریٹ نے تمام 33 بلوچ مظاہرین کو رہا کرنے کا حکم دے دیا،بلوچ مظاہرین کو جوڈیشل مجسٹریٹ شبیر بھٹی کی عدالت میں پیش کیا گیا،پانچ ہزار کے ضمانتی مچلکوں اور ایک لوکل شورٹی کے عوض ضمانت منظور کر لی گئی.

گرفتار بلوچ خواتین کا کہنا ہے کہ ہم کسی صورت بھی وزیر اعظم کے کہنے پر کوئٹہ واپس نہیں جائینگے،ہم پریس کلب جائیں گے .

دوسری جانب نیشنل پارٹی کے صدر اور بلوچستان کے سابق وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سے ٹیلوفونک رابطہ ہوا ہے، انہوں نے بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج میں شریک خواتین اور بچوں پر رات گئے تشدد اور گرفتاری پرتشویش سے آگاہ کیا.

دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اسلام آباد میں لانگ مارچ کے شرکاء کی گرفتاری کے خلاف کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کر دیا،کوہلو اور بارکھان میں سینکڑوں افراد کا احتجاج، بلوچستان پنجاب شاہراہ بند کر دی گئی، کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے باہر دھرنا شروع ہو گیا،

دوسری جانب بلوچ لانگ مارچ پر تشدد کیخلاف عدالت نے آئی جی و ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو طلب کر لیا تھا، بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کےچیف جسٹس عامر فاروق نےسماعت کے دوران آئی جی و ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو طلب کر لیا گیا۔پٹیشنرز کی جانب سے ایمان مزاری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئیں اور کہا کہ پر امن بلوچ مظاہرین کل اسلام آباد پہنچے جن پر لاٹھی چارج اور فورس کا استعمال کیا گیا، پر امن مظاہرین کو حراست میں بھی لیا گیا جو غیر قانونی ہے، مظاہرین میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے،دوبارہ سماعت ہوئی،تو آئی جی اسلام آباد عدالت پیش ہو گئے،سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پاکستانی شہری ہیں اور احتجاج تو ان کا آئینی حق ہے، کسی نے کوئی دہشت گردی تو نہیں کی،آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان نے عدالت میں کہا کہ مظاہرین کے پاس ڈنڈے تھے اور انہوں نے پتھر مارے جس سے کچھ لوگ زخمی ہوئے،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے آئی جی اسلام آبادسے سوال کیا کہ پٹیشن میں 86 لوگوں کے نام ہیں ان کا کیا اسٹیٹس ہے؟ آئی جی نے عدالت میں کہا کہ لسٹ میں جو نام لکھے گئے ہیں ان کی کوئی تفصیل موجود نہیں، ترنول کی ایف آئی آر میں تمام لوگ رہا ہو چکے ہیں،عدالت نے استفسار کیا کہ لوگوں کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش بھی کیا ہے یا نہیں؟ تھانہ کوہسار کی ایف آئی آر کب ہوئی ہے؟ جس کے جواب میں آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ مجسٹریٹ کے سامنے ہم نے پیش کر دیا ہے،لاء افسر نے عدالت میں کہا کہ کچھ کو ڈسچارج، کچھ کو جوڈیشل اور کچھ کو شناخت پریڈ کیلئے رکھا ہے،عدالت نے آئی جی کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ دیکھیے گا آپ کا کوئی آفیسر کوئی رکاوٹ نہ ڈالے، آئی جی اسلام آباد نے عدالت میں کہا کہ ہمارے ملک کے بچے ہیں ہم خیال رکھیں گے،عدالت نے آئی جی اسلام آباد سے کل تک مزید رپورٹ طلب کرلی اور حکم دیا کہ آئی جی کل تک بتائیں کتنے افراد جوڈیشل ہوئے، کتنے گرفتار ہیں اور کتنے رہا ہوئے؟

دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا کے خلاف کارِ سرکار میں مداخلت، دکانیں اور سڑکیں بلاک کرنے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے الزامات کے تحت تھانہ کوہسار اور تھانہ ترنول میں مقدمات درج کر لیے ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی پر لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کیخلاف بی این پی نے گورنر بلوچستان کو فوری اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کردی، گرفتار مظاہرین کی رہائی، انکے مطالبات کے حل کیلئے صدر، نگراں وزیراعظم اور دیگر سے ملاقات کریں گے، مسئلہ حل نہ ہوا تو گورنر استعفے دیں گے-

علاوہ ازیں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بلوچ مظاہرین سے مزاکرات کے لے کمیٹی بنا دی،کمیٹی تین وفاقی وزرا پر مشتمل ہے ۔کمیٹی فواد حسن فواد۔ مرتضیٰ سولنگی اورجمال شاہ شاملِ ہیں۔کمیٹی مظاہرین سے ابھی مزاکرات کے لیے روانہ ہو گئی ہے۔

ایک ماہ میں بلوچ طلباء کی ہراسگی روکنے سے متعلق کمیشن رپورٹ پیش کرے ،عدالت

 دو ہفتوں میں بلوچ طلبا کو ہراساں کرنے سے روکنے کیلئے کئے گئے اقدامات کی رپورٹ طلب

کسی کی اتنی ہمت کیسے ہوگئی کہ وہ پولیس کی وردیوں میں آکر بندہ اٹھا لے،اسلام آباد ہائیکورٹ

کیا آپ شہریوں کو لاپتہ کرنے والوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں؟ قاضی فائز عیسیٰ برہم

لوگوں کو لاپتہ کرنے کے لئے وفاقی حکومت کی کوئی پالیسی تھی؟ عدالت کا استفسار

لاپتہ افراد کیس،وفاق اور وزارت دفاع نے تحریری جواب کے لیے مہلت مانگ لی

عدالت امید کرتی تھی کہ ان کیسز کے بعد وفاقی حکومت ہِل جائے گی،اسلام آباد ہائیکورٹ

Leave a reply