اسلام آباد ہائیکورٹ، نگران وزیراعظم عدالت پہنچ گئے
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ لاپتہ بلوچ طلبہ کیس میں طلب کیے جانے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہو گئے ہیں،اسلام آبادہائیکورٹ نے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو طلب کر رکھا ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی بلوچ لاپتہ طلبا کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کر رہے ہیں،نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ ، وزیر داخلہ گوہر اعجاز و دیگر عدالت پیش ہوئے،اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کردیا
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم آئین کے اندر رہ کر کام کررہے ہیں، میں قانون کے مطابق جواب دہ ہوں ، آپ نے ہمیں بلایا ہم آگئے ہیں ، میں بلوچستان سے تعلق رکھتا ہوں ، ہم بلوچستان میں مسلح شورش کا سامنا کررہے ہیں،مجھے بلوچستان سے ہونے کی وجہ سے وہاں کے حالات کا زیادہ علم ہے، بلوچستان میں مسلح مزاحمت ہو رہی ہے، بلوچستان میں کچھ لوگ نئی ریاست بنانے کی کوشش کر رہے ہیں،نان اسٹیک ایکٹرز کی خلاف ورزیاں بھی ریکارڈ ہوتی ہیں، ہمارے بلوچستان کے ایک سابقہ چیف جسٹس کو مغرب کی نماز کے وقت ان مسلح جتھوں نے شہید کیا تھا، ان چیف جسٹس صاحب نے ایک انکوائری کی سربراہی کی تھی، زندہ رہنے کا حق سر فہرست ہے،
سسٹم میں کمی اور خامیاں ، ثبوت نہیں آتا تو کس کو کیسے سزا دیں،ہم مسلح جدوجہد کا سامنا کر رہے ہیں،نگران وزیراعظم
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگی بالکل ایک مختلف معاملہ ہے، ریاستی اداروں کو معلوم ہے ملک کیسے چلانا ہے،لیکن لوگوں نے حقوق کی خلاف ورزی کرکے ملک نہیں چلانا،یواین کا بھی ایک طریقہ ہے وہ پوچھتے ہیں کون لاپتہ ہوا، نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ وہ پوچھتے ہیں آپ جسٹس محسن اختر کیانی ہیں آپ لاپتہ ہو گئے ہیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ آپ مجھے بتا رہے ہیں کہ میں نے جبری لاپتہ ہو جانا ہے؟ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ میں مثال دے رہا ہوں، میں انوار کا نام لے لیتا ہوں،یہ بسوں سے اتار کر نام پوچھتے اور چودھری یا گجر کو قتل کر دیتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ سٹوڈنٹس کی لسانی بنیادوں پر پروفائلنگ نا کریں ،سسٹم میں کمی اور خامیاں ہیں، ثبوت نہیں آتا تو کس کو کیسے سزا دیں،ہم مسلح جدوجہد کا سامنا کر رہے ہیں،وہ ایک نئی ریاست تشکیل دینے کے لیے مسلح جدوجہد کر رہے ہیں،ریاست اخلاقی طور پر خود کو بالادست سمجھتی ہے تو ان کی جوابدہی زیادہ ہوتی ہے،ایسا نہیں ہے کہ خود کش حملہ آور نیک نامی کا باعث بنتے ہیں،90 ہزار افراد آج تک اس ملک میں دہشت گردوں کا نشانہ بن چکے ہیں، فرقہ واریت کی بنا پر لوگوں کے نام پوچھ کر قتل کئے گئے ہیں، تم چوہدری ہو گولی، تمہارا نام گجر ہے گولی، یہ سلسلہ ہے، کلاشنکوف اٹھانے والا اور نہتا فرد ایک جیسے نہیں ہو سکتے،مجھے صحافی نے پوچھا کہ آپ بلوچستان واپس کیسے جائیں گے؟
مطیع اللہ جان کو کسی نے اغوا کیا ہے تو بالکل کارروائی ہونی چاہیے ،نگران وزیراعظم
جسٹس محسن اختر کیانی نے نگران وزیراعظم سے استفسار کیا کہ بلوچستان تو دور یہ آپ کے سامنے مطیع اللہ جان جان کھڑے ہیں، دن دھاڑے اسلام آباد سے انہیں اغواء کر لیا گیا۔لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالہ سے کامیاب اقدامات کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے، قانون کی پاسداری ہر شہری کا حق ہے، نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ مطیع اللہ جان کو کسی نے اغوا کیا ہے تو بالکل کارروائی ہونی چاہیے ،عدالت نے کہا کہ اس بات کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے 59 لوگوں میں سے صرف 8 لوگ رہ گئے ہیں،نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ پیرا ملٹری فورسز، کاؤنٹر ٹیرارزم کے اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں، پوری ریاست کو مجرم تصور کرنا درست نہیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اسی ملک نے بڑے بڑے دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں، سسٹم کمزور ضرور ہے لیکن بے بس نہیں ہے، نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ میرا بیٹا فوج میں بھرتی ہوتا ہے تو میں کیا چاہوں گا کہ قانون میرے ساتھ کھڑا ہو یا دہشت گردوں کے ساتھ؟بیس سال سے لڑائی چل رہی ہے، آئندہ پارلیمنٹ آئے گی وہ بھی دیکھے گی، آئے روز کے الزامات سے ریاست کو نکالنا چاہیے، ہم نے اس لیے ہتھیار نہیں اٹھایا کہ ریاست نے ہمارے حقوق کی گارنٹی دی ہے،میں صرف لاپتہ افراد کے حوالے سے وضاحت کر رہا ہوں، یہ لاپتہ افراد کا پوچھیں تو پانچ ہزار نام دے دیتے ہیں، یہ خود بھی اس ایشو کو حل نہیں کرنا چاہتے،آئین پاکستان مجھ سے غیرمشروط وفاداری کا مطالبہ کرتا ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ خوبصورت باتیں کر رہے ہیں لیکن ہمارے پاس بہت سی مثالیں موجود ہیں،
روزانہ اداروں کے جوانوں کے بچے یتیم ہورہے ہیں مگر ہم خاموش ہیں،نگران وزیراعظم
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ یہ معاملہ ختم ہونا چاہیے، آئے روز ریاست پر الزامات کا سلسلہ روکنا چاہیے، قانون کو یہ دیکھنا ہوگا کہ نان سٹیٹ ایکٹرز اور سٹیٹ ایکٹرز کو کیسے دیکھنا ہوگا، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بات عدالت ، ایمان مزاری اور آپ کی ایک ہی ہے، ریاست مخالف لوگوں کو کوئی عدالت پروٹیکشن نہیں دے سکتی، کیا اس معاملے پر آپ قانون سازی کرسکتے ہیں؟ نگران وزیراعظم نے کہا کہ میں نہیں کرسکتا ، نیا پارلیمان کے پاس اختیارات ہونگے وہ کرسکتے ہیں،عدالت نے کہا کہ پرچہ کا اختیار صرف پولیس کے پاس ہے کسی اور کے پاس نہیں،جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اسی ملک میں بڑے بڑے دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزائیں ہوئیں،جن لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے انکو عدالتوں میں پیش کرنا لازم ہے، نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ یہ معاملہ بڑی سیاسی جماعتوں کو اٹھاکر حل کرنا چاہیے، ہمارے اداروں نے بڑی قربانیاں دی ہیں، روزانہ اداروں کے جوان شہید ہورہے ہیں، روزانہ اداروں کے جوانوں کے بچے یتیم ہورہے ہیں مگر ہم خاموش ہیں،آئین پاکستان کا آرٹیکل 5 میرے سے غیر مشروط وفاداری مانگتا ہے،
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ نئی تشکیل پانے والی کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کر دی،جسٹس محسن اختر کیانی نےکہا کہ گرفتاری میں قانون کی خلاف ورزی ہو تو وہ غیرقانونی ہو جاتی ہے، کابینہ کے سامنے معاملہ رکھیں اور آئندہ سماعت پر عدالت کو آگاہ کریں، عدالت نے کیس کی سماعت 3 اپریل تک ملتوی کر دی
اسلام آباد ہائیکورٹ نے نگران وزیراعظم کو پہلے بھی طلب کیا تھا تاہم وزیراعظم عدالت پیش نہیں ہوئے تھے جس پر عدالت نے دوبارہ انوار الحق کاکڑ کی طلبی کا نوٹس جاری کیا گیا تھا، آج نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ عدالت پیش ہو گئے ہیں، اس موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں، آئی جی اسلام آباد بھی عدالت پہنچ چکے ہیں،پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی.
آپ سے گفتگو کی کوشش کرتا ہوں آپ لڑنے کی کوشش کرتے ہیں،نگران وزیراعظم کا صحافی سے مکالمہ
اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے بعد نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ عدالت سے نکلے تو صحافیوں سے بات چیت کی، اس دوران نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ میں نے عدالت میں جبری گمشدگی کا دفاع بالکل نہیں کیا، جبری گمشدگی کے نام پر جو الزامات لگ رہے ہیں، ان کا دفاع کیا، وزیراعظم اور صحافی کے درمیان سخت سوال و جواب ہوئے، نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ آپ سے گفتگو کی کوشش کرتا ہوں آپ لڑنے کی کوشش کرتے ہیں،صحافی نے سوال کیا کہ یہ افراد سی ٹی ڈی کی تحویل میں تھے تو پہلے کیوں نہیں بتایا گیا،نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ الزام کو الہامی حیثیت دینا چاہتے ہیں،ہم انکوائری کریں گے پھر بتا دیں گے،صحافی نے سوال کیا کہ نگران حکومت نے کس آئین کے تحت 6 ماہ کا وقت لیا،نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 1973 کے تحت،
لاپتہ افراد انکوائری کمیشن کی مدت میں توسیع
سپریم کورٹ، جبری گمشدگی،لاپتہ افراد بارے درخواستوں پر سماعت 9 جنوری تک ملتوی
پچاس سال بھی لگ جائیں ہم عدالت آتے رہیں گے،لاپتہ افراد کیس میں شہری کی دہائی
تعلیمی ادارے میں ہوا شرمناک کام،68 طالبات کے اتروا دیئے گئے کپڑے
چارکار سوار لڑکیوں نے کارخانے میں کام کرنیوالے لڑکے کو اغوا کر کے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا
لاپتہ افراد کی عدم بازیابی، سندھ ہائیکورٹ نے اہم شخصیت کو طلب کر لیا
لگتا ہے لاپتہ افراد کے معاملے پر پولیس والوں کو کوئی دلچسپی نہیں
سندھ ہائیکورٹ کا تاریخی کارنامہ،62 لاپتہ افراد بازیاب کروا لئے،عدالت نے دیا بڑا حکم