تاریخ انسانیت ہزاروں واقعات سے لبریز ہے
حضرت سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر نبی کریمﷺ کی ذات اقدس تک بہت سارے انبیاء کرام علیہ السلام کے واقعات الہامی کتابوں میں موجود ہیں۔
ہر نبی و رسول نے اسلام کی تبلیغ کی
روئے زمین پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے313 رسول معبوث فرمائے
ہر سول کو الگ شریعت دے کے زمین میں بھیجا
کئی انبیاء کے ادوار کا تذکرہ، انکی قوم کا حال، ماننے اور جھٹلانے والوں کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔
جن قوموں نے نبی و رسول کی تعلیمات کو تسلیم کیا وہ فائدے میں رہے ار جنہوں نے جھٹلایا ان پر سخت ترین عذاب نازل فرمائے گئے۔
بالآخر حضور خاتم النبیینﷺ تشریف فرما ہوئے اور دین اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا
مکہ کی سرزمین سے اس دین کی تبلیغ کا آغاز ہوا۔
بظاہر ایک چھوٹی سے دکھنے والی جماعت نے مختصر وقت میں انتہائی درد ناک تکلیفیں برداشت کرنے بعد ریاست مدینہ کا قیام عمل میں لایا
اور دیکھتے ہی دیکھتے اس ریاست مدینہ کا باب اتنا وسیع ہوا کہ مجاھدین اسلام نے یورپ تک دستک دے دی
یہاں تک پہنچنے کیلئے ہزاروں مجاھدین اسلام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔
ان عظیم شخصیات کی قربانیاں صرف ایک نظام کو پوری دنیاء میں پھیلانے اور اس نظام کی حفاظت کیلئے تھیں۔
ایسا نظام کہ جس نظام کے تحت صرف ایک چٹھی کی اہمیت اس قدر ہو کہ وہ چٹھی بھی حاکم کو معزول کردے۔
آج سے چودہ سو سال پہلے اور پھر اس کے بعد میں پیش آنے والے واقعات نے بھی یہ ثابت کیا کہ "اسلامی نظام” ہر شخص کے جان و مال عزت و آبرو کا محافظ نظام ہے۔
جب یہ نظام پوری دنیاء پہ رائنج تھا تو ہر چھوٹا بڑا اس نظام کے ماتحت تھا۔
اس نظام کے نفاظ یعنی دور خلافت کے سینکڑوں واقعات ہیں لیکن میں یہاں صرف ایک واقع پیش کروں گا۔
ثمر قند اور بخارا ایک دور کے اندر دو بہت اہم شہر رہے ہیں
قرآن مجید کے بعد احادیث کی سب سے معتبر کتاب "بخاری شریف” کے مصنف امام اسماعیل بخاری اسی "بخارا” شہر کے تھے۔
اس بخارا شہر سے ایک مجوسی مسلمانوں کے خلیفہ کے پاس شکایت کرنے کیلئے چلتا ہے
اس وقت مسلمانوں کا دار الحکومت شام کا شہر "دمشق” تھا
جب یہ قاصد دمشق کی گلیوں میں پہنچا تو خلیفہ کا پتہ پوچھا
لوگوں نے اشارے سے بتایا کہ وہ سامنے مسلمانوں کے خلیفہ کا گھر ہے
وہ شخص اس گھر کے پاس جاکے دیکھتا ہے تو اسے ایک شخص دیوار کو مٹی کے ساتھ لپائی (پلستر) کرتا دکھائی دیتا ہے اور ایک عورت ہے جو اس شخص کی مدد کر رہی ہے پیوند لگے کپڑے اس شخص نے زیب تن کئے ہوئے ہیں۔
قاصد واپس پلٹا اور لوگوں سے کہا کہ میں نےآپ سے خلیفۃ المسلمین کا پتہ پوچھا ہے
وہ تو کسی غریب شخص کا گھر ہے
لوگوں نے کہا کہ وہی غریب شخص مسلمانوں کا خلیفہ ہے
قاصد دوبارہ پہنچا اور دروازے پہ دستک دی
اندر سے پیوند لگے کپڑوں والے خلیفہ عمر ثانی حضرت عمر بن عبد عزیز رحمۃ اللہ علیہ باہر تشریف لائے۔
قاصد نے شکایت پیش کی جو اس نے ایک کاغذ کی چٹھی پہ لکھی ہوئی تھی کہ
مسلمانوں نے بغیر اطلاع دئے ہمارے شہر پر حملہ کرکے شہر کو قبضے میں لے لیا ہے۔
امیر الموئمنین نے اسی چٹھی کی دوسری طرف لکھ دیا کہ۔
حاکم بخارہ ایک قاضی مقرر کرے اور اس شخص کی شکایت کو قاضی کے سامنے پیش کرے۔
قاصد مایوس ہوا کہ اس بات پر کون عمل کرے گا
لیکن اس نے بات تعمیل کی اور حاکم بخارا کو وہ چٹھی دکھائی کہ آپ کے خلیفہ نے یہ لکھا ہے۔
حاکم نے قاضی منتخب کیا اور اس مجوسی کا مقدمہ اس کی عدالت میں رکھا
قاضی نے سوال پوچھا
کیا آپ نے یہ شہر فتح کرنے سے پہلے شہر والوں کو دین کی تبلیغ کی تھی؟
جواب ملا کہ اگر ہم ایسا کرتے تو شہر والے ہمارے مخالف ہوجاتے اور وہ ہارے خلاف جنگ کی تیاریاں کرتے
قاضی نے دوبارہ سوال دوہرایا
جواب آئیں بائی شائیں ملا
قاضی نے دوسرا سوال کیا
کیا آپ نے شہر والوں کو جزیہ دینے کا کہا تھا؟
جواب ملا کہ اگر ہم ایسا کرتے تو جنگ کے خطرات بڑھ جاتے اور آئیں بائیں شائیں۔۔۔
قاضی نے سوال دوہرایا
پھر وہی جواب
قاضی نے تیسرا سوال کیا۔
کیا آپ نے حملہ کرنے سے پہلے اطلاع دی تھی؟
جواب ملا کہ جناب قاضی صاحب یہ جنگی چالیں ہوتی ہیں اگر ہم حملے کی اطلاع دیتے تو شائد یہ شہر فتح نہ کر پاتے
قاضی صاحب نے فیصلہ سنایا ۔
اسلامی قوانین کے لہاظ سے مسلمانوں نے شریعت کی مقرر کردہ حد سے تجاوز کیا ہے اور قوانین کی خلاف ورزی کی ہے
لہذا یہ شہر غیر مسلموں کے حوالے کیا جائے
اور تین دن کے اندر اندر تمام مسلمان اس شہر کو خالی کردیں۔۔۔
اسی دن مغرب سے پہلے پہلے پورا شہر خالی تھا اور لوگ قافلہ در قافلہ واپس جارہے تھے۔
مجوسیوں نے یہ منظر دیکھا تو انگلیاں دانتوں میں دبائے ہکے بکے رہ گئے کہ آخر یہ لوگ کس مذہب کے ماننے والے ہیں کہ اپنے خلیفہ کی ایک چٹھی پر اتنا اہم شہر چھوڑ کے واپس جارہے ہیں۔۔۔
مجوسیوں نے تمام مسلمانوں کو واپس بلایا اور شہر ان کے حوالے کرتے ہوئے خود بھی مسلمان ہوگئے۔
اللہ اکبر
‎@JavaidHaqqani

Shares: