جب سوات کے باسیوں کیلئے سیاحت وبال بن جاتا ہے تحریر : آصف شہزاد

0
62

وادئ سوات پاکستان کا وہ سیاحتی علاقہ جوکہ قدرت کے حسین نظاروں اور دلکش وادیوں کے ساتھ ساتھ قدیم تہذیبوں سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے بھی کافی اہمیت کا حامل ہے یہاں بدھ مت اور ہندو شاہی کے آثار جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں دریائے سوات کے دونوں اطراف مختلف ادوار کے باقیات اور آثار نمایاں طور پر سیاحوں کو اپنی اپنی طرف راغب کرتے ہیں

مخدوش حالات اور فوجی اپریشن کے بعد جب سوات میں سیاحتی سرگرمیاں بحال ہوئی تو یہ علاقہ مزید توجہ کا مرکز بن گیا کیونکہ بین الاقوامی اور ملکی میڈیا پر سوات کے حوالہ سے گاہے گاہے خبروں نے اس علاقہ کی مقبولیت میں اور بھی اضافہ کردیا جس سے ملک بھر کی عوام کا تجسس وادئ سوات اور یہاں سے جڑے سیاحتی مقامات کو دیکھنے کیلئے بڑھ گیا۔ساتھ ہی ساتھ جب فوجی اپریشن اختتام پزیر ہوا اور حالات بہتر ہوئے تو سوات کے لوگوں نے انتہائی مثبت کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاحت کی فروغ میں اپنا حصہ شامل کردیا، نئے سیاحتی مقامات کے دریافت سے لیکر بین الاقوامی معیار کی سہولیات تک سوات کی وادیاں سیاحوں کیلئے پر کشش بنادی گئیں جن سڑکوں کو خراب حالات اور سیلاب کی وجہ سے نقصانات پہنچے تھے چند سال گزرنے کی بعد ان پر تعمیری کام کا آغاز ہوا جس سے سوات کی سیاحت کو مزید ترقی مل گئی جبکہ کالام اور ملم جبہ کی سڑکیں بن جانے سے یہاں کی سیاحت کو چار چاند لگ گئے۔

ملم جبہ چیئر لفٹس بحال ہوئے ،تباہ شدہ ہوٹل دوبارہ تعمیر ہوئے ، مزید بے شمار ہوٹل بن گئے جبکہ نو ہزار فٹ زیادہ کی بلندی پر واقع وادئ ملم جبہ میں طرح طرح کے بین الاقوامی معیار کے کھیلوں کی داغ بیل ڈال دی گئی جس سے ملم جبہ کی وادی میں ایسی کشش پیدا ہوئی کہ عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی بھی ان کھیلوں میں حصہ لینے پر مجبور ہوگئے، ملم جبہ میں سیمسنز کمپنی کے انتظامیہ نے اس ضمن قابل تحسین کردار ادا کیا۔اس کے ساتھ ساتھ سب سے اہم کردار موجودہ حکومت نے سوات ایکپریس وے کی تعمیر کی شکل میں ادا کیا جس سے سفر میں آسانی اور وقت کی بچت نے سیاحوں کو سوات کی جانب راغب کیا۔

عزیزان من !
پورے ملک کے سیاحوں کو تو وادئ سوات نے اپنے سینے پر جگہ دیدی جوکہ یہاں کے عوام کیلئے کافی خوش کن تاثر کا سبب ہے تاہم لانگ ویکینڈ اور عید کی چھٹیوں میں یہاں کے مقامی لوگوں کو سیاحت کا جو موقع میسر تھا اب وہ نہیں رہا !

کیونکہ ان مخصوص دنوں میں سیاحوں کی جو جم غفیر وادئ سوات پہنچتی ہے اس سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور چند کلومیٹر کے سفر میں بھی گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ پورے ملک سے بالعموم جبکہ خیبر پختونخواہ سے بالخصوص سیاح سوات کی طرف امڈ آتے ہیں جبکہ ان مواقع پر سوات کی انتظامیہ اکثر اوقات غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہیں اور ان سیاحوں کیلئے کوئی پیشگی منصوبہ بندی مرتب نہیں دیتے اسلئے یہاں کی تنگ سڑکوں پر لمبی لمبی قطاریں لگ جاتیں ہیں اور شدید ٹریفک جام رہتا ہے۔

حالیہ اعداد و شمار کے مطابق بڑی عید کی چھٹیوں میں اسی ہزار سے زائد گاڑیاں سوات میں داخل ہوئیں جن میں لاکھوں افراد سوار تھے اور متوسط اندازہ ہے کہ ان گاڑیوں میں تقریباً آٹھ لاکھ افراد سیاحت کی غرض سوات میں داخل ہوئے، جوکہ ظاہری طور پر ایک بڑی تعداد ہے اسی طرح یوم آزادی کی چھٹیوں میں بھی سیاحوں کی بڑی تعداد کی آمد ریکارڈ کی گئی جبکہ حالیہ محرم کی چھٹیوں میں کالام سمیت ضلع بھر کے سولہ سو ہوٹل سیاحوں کیلئے کم پڑگئے اور لوگ ٹینٹوں اور گاڑیوں میں رات گزارنے پر مجبور ہوگئے یعنی مشاہدہ کے مطابق سوات کی موجودہ سڑکیں ، ہوٹلز ، اور ریستوران اس تعداد کو سنبھالنے کا متحمل نہیں !

اس کے علاوہ سڑکوں پر ٹریفک جام سے مقامی آبادی کو بھی شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے خاص طور پر جب کسی مریض کو ایمرجنسی صورتحال کا سامنا ہو اور ہسپتال پہنچانا ہوتا ہے تب مذکورہ ٹریفک جام میں پھنس کر خطرات کا شکار ہونا یہاں کے باسیوں کیلئے معمول بن گیا ہے، جن مقامی تاجروں کے گھر کالام روڈ پر واقع ہیں اور کاروبار مینگورہ شہر میں ہیں ان کیلئے مذکورہ دنوں میں چند کلو میٹر کا فاصلہ کوہِ گراں کو عبور کرنے کے مترادف ہوتا ہے شہر پہنچنے کیلئے گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہنا اور پھر واپسی پر اسی وبال کا سامنا کرنا ان کی زندگی کا معمول بن چکا ہے جس کا صبر کے علاوہ کوئی حل ان کے پاس موجود نہیں ہے
دوسری جانب یہ بات قطعی طور پر نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ مقامی لوگوں کیلئے بھی ان مخصوص دنوں کی چھٹیاں کبھی تفریح کا موقع ہوا کرتی تھیں لیکن اب سیاحوں کے اس جم غفیر میں ان مقامی لوگوں کی چھٹیاں گھروں پر ہی گزرتی ہیں کیونکہ اگر مقامی لوگ بھی مذکورہ رش میں شامل ہوجائے تو ممکنہ طور پر سیاحوں کیلئے مزید پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں اسلئے اب سوات کے باسی پختون روایات کے مطابق سوات آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر ان مخصوص دنوں میں اپنی تفریح کی قربانی دیتے ہیں اور سیاحوں کو مواقع فراہم کرتے ہیں اور اپنی چھٹیاں گھروں میں ہی گزارتے ہیں۔

موجودہ حکومت کے ابتدائی آیام میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ کی جانب سے اقدامات قابل ذکر ہیں جن میں ٹریفک وارڈن سسٹم اور ٹورسٹ پولیس سر فہرست ہیں لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ٹورسٹ پولیس غیر فعال ہوتے نظر آرہے ہیں جبکہ ضلعی انتظامیہ بھی اس ضمن غیر سنجیدہ نظر آرہی ہے۔جس کے نقصانات یہ برآمد ہوئے کہ جگہ جگہ شدید ٹریفک جام کیساتھ ساتھ سوات کی تاریخ میں پہلی بار سیاحوں کو لوٹنے کا سلسلہ شروع ہوا اگرچہ مقامی پولیس کیمطابق سیاحوں کو لوٹنے والے گروہ تو گرفتار کرلئے گئے ہیں تاہم مقامی پولیس کی غیر فعالی اور مقامی انتظامیہ کی غیر سنجیدگی نے ایسے واقعات کو جنم دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر سوات ایکپریس وے کے فیز ٹو کیلئے فنڈز ریلیز کئے جائیں تاکہ سیاحوں کو دیگر سہولیات کے ساتھ ساتھ سفری آسانی یقینی بنائی جاسکے اور سوات میں معیشت کو تباہی سے بچایا جاسکے۔ وزیر اعلٰی خیبر پختونخواہ کو چاہئے کہ ٹورسٹ کیلئے مرتب دئے گئے پولیس دستہ کی فعالی اور بہتری میں کردار ادا کریں جبکہ ضلعی انتظامیہ کو ھدایات جاری کریں کہ مذکورہ بالا حالات پر قابو پانے کیلئے اقدامات کو یقینی بنائے ، ٹی ایم اے اور دیگر متعلقہ محکموں کو سیاحتی مقامات کی صفائی اور اس حوالہ سے منصوبہ بندی کی ذمہ داریاں دی جائیں تاکہ سیاحوں کی تعداد ان وادیوں کے قدرتی حسن پر اثر انداز نہ ہو ، دریائے سوات پر سیلاب کی وجہ سے بہہ جانے والے درجن بھر پُل تاحال تعمیر نہیں ہوسکے جس سے نئے سیاحتی مقامات تک رسائی ممکن نہیں ہے لہٰذا ان پُلوں کی تعمیر سے ملم جبہ اور کالام پر سیاحوں کا رش کم کیا جاسکتا ہے جس سے ٹریفک کے نظام پر پڑنے والے بوجھ میں بھی کافی کمی آسکتی ہے ، کالام سے کمراٹ تک باڈگوئی پاس پر سڑک کی تعمیر سے دیر اور سوات کی سیاحت کو مزید ترقی ملیگی جس سے دیر کے عوام کی محرومیوں کا آزالہ ممکن ہے۔

Leave a reply