جدید خاندانی منصوبہ بندی — خطیب احمد

0
34

ہم مڈل کلاسیوں کی شادیوں میں شادی لڑکے کی ہو یا لڑکی کی جتنی بھی سادگی برتی جائے نہ نہ کرتے اخراجات قرض لینے کی سطح تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ گھر کی خواتین لڑکے اور لڑکی دونوں سائیڈ سے زیور کے بغیر شادی کو حرام سمجھتی ہیں۔ شادی کے بعد اکثریت میں جوڑے مالی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور وہ مشکلات پلس خاوند کی مالی حیثیت تب اور واضح ہو جاتی جب پہلے دوسرے ماہ ہی خوشخبری آجاتی۔

بھائی یورین ٹیسٹ پازیٹو آنے کے فوری بعد کسی تجربہ کار ریڈیالوجسٹ سے اسکین کروا کر پریگنینسی کی لوکیشن معلوم کرنا ہوتی ہے۔ اور پھر اس اسکین کے ساتھ گائناکالوجسٹ سے ملنا ہوتا ہے۔ بنیادی ٹیسٹنگ اور اگر کسی دوا کی ضرورت ہو تو وہ شروع کر دی جاتی ہے۔ 20 روپے کی سٹک سے یورین ٹیسٹ کرکے گھر نہیں بیٹھنا ہوتا۔

اگر خوشخبری ملنے پر آپکے پاس کوئی پیسے نہیں ہیں۔ اور یہ کام اتنی جلدی ہو گیا ہے کہ ابھی شادی کا بھی قرض باقی ہے تو اگر پاس کچھ سونا موجود ہے وہ بغیر کسی کو بتائے دونوں میاں بیوی مشورہ کرکے بیچ دیں۔ اور خاوند اپنی حاملہ بیوی کی خود کئیر کرے۔ ہر چیز خود میسر کرے۔ نہ کہ اسے اپنی امی یا بہنوں یا گھر کی بزرگ خواتین کے حوالے کر دے۔ ہر ماہ ریگولر چیک اپ کرائیں اور ڈیلیوری بے شک نارمل ہی کیوں نہ بتائی گئی ہو۔ کسی بھی قیمت پر دائی یا کسی ایسے ہسپتال میں مت کرائیں جہاں بچے کو فی الفور آکسیجن لگانے کی سہولت میسر نہ ہو۔

کوشش کریں کسی ایسی جگہ ڈیلیوری ہو جہاں بچوں کی نرسری موجود ہو۔ کم از کم وہاں سے قریب ہی کسی ہسپتال میں نرسری ہو۔ گاؤں سے شہر یا شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں آکسیجن لگوانے یا نرسری میں بچہ لیجانے تک وہ زندہ بچ بھی جائے اسکا برین کسی حد تک متاثر یا ڈیمج ہو چکا ہوتا۔ اس چیز کا فوری پتا نہیں چلتا۔ چند ماہ یا ایک دو سال تک جب بچہ اپنی عمر کے مطابق حرکات و سکنات نہیں کرتا تو ڈاکٹر پوچھتے کہ پیدائش کہاں ہوئی تھی۔ بچہ رویا تھا اسکا رنگ کیا تھا اسے آکسیجن لگی تھی ؟ تو خیال آتا گڑ بڑ کہاں ہوئی تھی۔

برین ڈیمج کے نتیجے میں ہونے والی معذوری کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ اسے سیری برل پالسی کہتے ہیں۔ جسم مفلوج ہوجاتا اور ساری عمر بچے کو بیٹھنے کھڑا ہونے بات کرنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ بروقت کیا گیا فیصلہ جو حاملہ ماں کی اچھی کئیر اور اچھی جگہ ڈیلیوری عمر بھر کے پچھتاوے سے بہتر ہے۔

اگر زیور نہیں ہے تو کم از کم قرض اتر جانے یا قرض اترنے کی کوئی سبیل ہی بن جانے تک انتظار کر لیا جائے۔ فیملی بڑھانے کا فیصلہ باہمی رضا مندی سے مؤخر کر لیا جائے۔

میں اور مہدی بخاری بھائی سکردو کے ایک ہوٹل میں رکے ہوئے تھے۔ ہمارے ساتھ والے کمرے میں ایک فرینچ کپل رکا تھا۔ ان سے چائے کی میز پر گپ شپ ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک سال کے ہنی مون پر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں کا فیصلہ ہے ہم ایک سال تک کوالٹی ٹائم ساتھ گزاریں گے چھ ماہ چند ملکوں میں اور چھ ماہ پیرس میں جاکر گزاریں گے۔ پاکستان میں وہ ایک ماہ رکنے والے تھے۔ اور پھر فیملی بڑھائیں گے۔ یہاں یہ کنسپٹ تو جیسے گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اس بات کو نیو بیاہتا جوڑوں تک پہنچانے کی ضرور کوشش کریں۔۔

Leave a reply