دریائے جہلم کی سیر تحریر: اسد عباس خان

0
117

دریائے جہلم کی سیر

جولائی کے مہینہ میں شدید گرمی اور حبس سے گٹھن کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار مون سون کے آغاز سے قبل ہی بن بتلائے بادلوں کی کوئی ٹولی آتی ہے اور یکلخت چہار سو برکھا برسنے سے کچھ دیر تک گرمی کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔ یا پھر طوفانی و گرد آلود جھکھڑ ہر ظاہری چیز کو یک رنگ کر دیتا ہے۔ گزشتہ روز جب عین دوپہر آسمان سے آگ اگلتے سورج کو بادلوں کے ساتھ اٹکیلیاں کرتے دیکھا تو اچانک بچوں کو نہ جانے کیا سوجھی۔۔۔
کہنے لگے دریا پر چلتے ہیں۔ دریا کا نام سن کر زمانہ طفل کے خیالات میں گم ہوا تو فضل عدنان کی آواز نے جھنجوڑا کہتا ہے ماموں کیا ہوا جلدی کریں موسم بہت اعلٰی ہے۔ پلیز لے چلیں ناں۔۔۔
دریائے جہلم گھر سے زیادہ دور نہیں پیدل چلیں تو پندرہ منٹ کی مسافت پر ہے۔ موسم کی انگڑائی دیکھ کر اپنا بھی جی للچایا کہ گھر میں بیٹھنے سے باہر کی ہوا خوری دل، دماغ اور جُسہ کے لیے زیادہ مفید ہے لہذا طے ہوا کہ کھانا کھانے کے بعد رخت سفر باندھیں گے۔ کھانے سے فراغت کے فوراً بعد فیصل عدنان خان بھائی سے رابطہ کیا اور انہیں بھی دعوت دیکر ہمسفر بنا لیا۔ پرجوش بچوں عمر فاروق اور فضل عدنان کے ساتھ برادر فہیم خان بھی دریائی نظارے کے شوق دیدار میں گرمجوشی سے تیار تھے۔ گاؤں کے فطری خوبصورت اور سادہ نظارے شہروں کی مصنوعی چکا چوند کو مات دیتے ہیں۔ کچے راستے، لہلہاتے کھیت، ہری بھری فصلیں، مٹی کی سوندی سوندی خوشبو اور شور شرابے کے پاک فضاء زندگی کی خوبصورتی کا احساس دلاتی ہے۔ یوں تو پنڈ دادنخان کے علاقہ میں اور کھیوڑہ سالٹ رینج کے نزدیک تمام زمینیں کلر ذدہ اور ناقابل کاشت ہیں۔ لیکن دریائے جہلم کے نزدیک زمینیں سونا اگلتی ہیں۔ مکئ کی تیار فصل اور زمین پر بکھرے اس کے سنہری خوشے واقعی ماحول کو بھی سنہرا کیے ہوئے تھے۔ ان زمینوں پر مکئ کے علاوہ آلو، مٹر، گندم، گنا، جوار جبکہ دیگر سبزیوں میں لہسن، پیاز، ٹماٹر، سبز مرچ، بھنڈی، کدو، گوبھی سمیت ہر قسم کی سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔ اگر راستے پر فطرت کے رنگ بکھرے ہوں تو نظارے اپنی فرحت بخشی سے ایک قرار کا سا احساس پیدا کرتے ہیں، جس کا اپنا ہی الگ لُطف ہوتا ہے۔ باتوں باتوں میں ہی مسافت کٹ گئی اور ہم دریا کے کنارے پہنچ گئے۔ وہ دریا جسے ہم نے بچپن میں دیکھا تھا کہیں نظر نہ آیا۔ وہ دریا جس کے پاٹ کی چوڑائی اتنی تھی کہ دوسرا کنارہ نظر تک نہ آتا تھا آج سکڑ کر چند میٹر تک محدود ہو چکا تھا۔ اور یہاں کھڑا ہوا پانی کچھ دن پہلے آنے والے ریلے کا۔۔۔۔
دریا میں رسی کی مدد سے چلنے والی کشتی احتیاطاً تھی تاکہ برساتی موسم میں اگر طغیانی آۓ تو اس کشتی کی مدد سے پانی کو عبور کیا جا سکے۔ جسے ہم نے بھی بچوں کو تفریح فراہم کرنے کی خاطر استعمال کیا۔ پانی کے دوسرے پار دریا کے اندر ہی قابل کاشت زمینیں اور دیہاتی لوگوں کے ڈیرے ہیں۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ اس خوبصورت ترین جزیرے کے دوسرے سرے پر بھی اتنا ہی دریا بہتا ہے جتنا ہم کراس کر کے یہاں پہنچے تھے اور تقریبا ایک کلو میٹر تک کا چوڑا یہ درمیانی علاقہ سرسبز ترین اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ بھی کبھی دریا تھا لیکن اب شاید قیامت تک کبھی دریا نہ بن پائے گا۔
پاکستان ’ماحولیاتی تبدیلی‘ سے متاثرہ ممالک میں سرِ فہرست ہے۔ اس تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر پانی کے بحران کی صورت میں نمایاں ہو رہا ہے۔ کوہ ہمالیہ سے نکلنے والا دریائے جہلم کبھی پنجاب کا سب سے اہم دریا ہوا کرتا تھا مگر آج ہندوستانی آبی جارحیت کا شکار یہ دریا خود پیاس کے ہاتھوں دم توڑ رہا ہے۔
دریا کے تالاب میں تبدیل ہونے کا احساس انسانوں کے ساتھ ساتھ شاید جانوروں کو بھی بخوبی ہے۔ دریا میں درجنوں بھینسیں اور گائیں نہاتی اور تیرتی نظر آئیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ دریا انتہائی آلودہ ہوگیا ہے۔ جانوروں کی غلاظت پانی میں شامل ہو رہی ہے جس سے آبی حیات کی بقا بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے مطابق پانی کے بہاؤ میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ دریا کی خشکی نے جانوروں کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک چہل قدمی کا راستہ بھی فراہم کر دیا ہے۔ بھینسوں کی کثیر تعداد سے واضح ہوتا ہے کہ دریا کی آلودگی کا عمل بہت تیزی سے جاری ہے۔ اگر یہی حال رہا تو دریا کے سبب بننے والے قدرتی مناظر تک ناپید ہو جائیں گے۔۔۔
اور شاید اگلی نسلیں دریائے جہلم کی موجودگی کے آثار پر ’ریسرچ‘ کرتی رہ جائیں گی۔ ہم انہیں سوچوں میں گم خوبصورت نظاروں کے مزے لے رہے تھے اور بچے ہریالی وادی دیکھ کر کلہاڑی ہاتھوں میں لیے "ارتغرل غازی” اور "ترگت” بنے ہوئے تھے۔ اس وقت تک آسمان پر موجود بادلوں نے طوفانی ہواؤں کو دعوت عام دیدی۔ خشک ریت ہوا میں اڑنے لگی اور گردوغبار کا شدید طوفان پاؤں اکھیڑنے پر آ گیا۔ فیصل عدنان بھائی کے ساتھ مل کر بچوں کو سنبھالا اور واپس گھر جانے کی تگ و دو میں لگ گئے۔
سامنے سے آنے والے طوفان کے باعث گھر کے رخ پر چلنا بھی شدید دشوار تھا۔ پندرہ منٹ کا راستہ آدھ گھنٹے سے زیادہ وقت میں طے ہوا۔
اور سارے راستے ریت اور مٹی کے تھپیڑوں سے لڑ کر حالت ایسی ہو گئی کہ گھر پہنچنے پر گھر والے ہی پہچان نہ پاۓ۔

صدائے اسد
اسد عباس خان

Leave a reply