جہاد و رباط کے چور
ازقلم غنی محمود قصوری
بسا اوقات انسان اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے چوری کرتا ہے چوری کرنا ہر مذہب میں گناہ ہے اور چوری کئی طرح کی ہوتی ہے
آجکل جہاں جلد امیر ہونے کیلئے شارٹ کٹ طریقے سے چوری ڈکیتی کرکے مطلوبہ ٹارگٹ حاصل کیا جاتا ہے وہاں مذہبی امور میں بھی چوری کرکے دکھلاوے کی کوشش کی جاتی ہےویسے تو مذہبی امور میں کئی طریقوں سے چوریاں کی جاتی ہیں مگر معروف چوری رقم کرنا چاہتا ہوں-
تمام ارکان اسلام بڑی عزت و تکریم والے ہیں مگر جو عزت و تکریم جہاد و رباط کو ہے اس کی شان ہی الگ ہےاسی شان و شوکت جہاد کے باعث کفار نے بھی لفظ جہاد اور شہادت کا استعمال شروع کر دیا ہے تاکہ ان کے پیروکار بھی مسلمانوں کی طرح اس عمل کو محبوب ترین جان کر لڑیں اور دفاع مضبوط ہو-
مثال ہمارے قریب میں واقع دنیا کے سب سے بڑے مشرک ہندو کی ہی لے لیجئے وہ اپنے فوجیوں کو شہید اور کشمیری مجاھدین کو ہلاک لکھتا و پکارتا ہےخیر وہ تو بے دین لوگ ہیں ان سے کیا گلہ شکوہ کرنا-
بعض اپنے پڑھے لکھے باشعور مسلمان بھی اس چوری میں ملوث ہیں جہاد و رباط کی چوری بہت عام ہو چکی ہے جو کہ دراصل جہاد و رباط میں جان،مال دیئے بغیر دکھلاوے کی شان و شوکت لینے کی کوشش ہے-
لفظ جہاد کے معنی کوشش کے ہیں یعنی وہ کوشش جو راہ خدا میں مظلومین کی مدد کے لئے کی جائے اور کفار کیساتھ لڑا جائےیہ عمل جہاد اتنا پیارا ہے کہ نبی کریم نے خود کرکے دکھلایا اور حکم دیا جہاد بارے حدیث ہے-
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا للہ تعالیٰ نے اس شخص کے لیے جو اس کی راہ میں نکلے، اور اسے اس کی راہ میں صرف جہاد اور اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے رسولوں کی تصدیق ہی نے نکالا ہو-
(تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) میں اس کے لیے ضمانت لیتا ہوں کہ اسے جنت میں داخل کروں، یا اجر و ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ اس منزل تک لوٹا دوں جہاں سے وہ گیا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر مجھے مسلمانوں کے مشقت میں پڑ جانے کا ڈر نہ ہوتا تو میں کسی بھی سریہ (لشکر) کا جو اللہ کے راستے میں نکلتا ہے ساتھ نہ چھوڑتا، لیکن میرے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ سب کی سواری کا انتظام کر سکوں، نہ لوگوں کے پاس اتنی فراخی ہے کہ وہ ہر جہاد میں میرے ساتھ رہیں، اور نہ ہی انہیں یہ پسند ہے کہ میں چلا جاؤں، اور وہ نہ جا سکیں، پیچھے رہ جائیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں جہاد کروں، اور قتل کر دیا جاؤں، پھر جہاد کروں، اور قتل کر دیا جاؤں، پھر جہاد کروں، اور قتل کر دیا جاؤں
رباط کے معنی اسلامی سرحدات پہ پہرا دینا ہے اور یہ انتہائی افضل اور اہم ترین فریضہ ہے رباط بارے حدیث شریف ہے
سیدنا سلمان الخیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روایت کرتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں ایک دِن اور رات سرحدوں پر ڈٹے رہنا ایک ماہ کے قیام و صیام سے زیادہ افضل ہے،اگر کوئی حالت رِباط میں فوت ہو جائے تو وہ جو عمل زندگی میں کرتا تھا وہ اللہ کے ہاں قیامت تک جاری و ساری رہے گااور وہ فتنہ میں مبتلا کرنے والے سے بھی محفوظ ہو جاتا ہے-
دونوں احادیث نبویہ ملاحظہ فرمائیں اور دونوں کاموں کا اجرو ثواب ملاحظہ فرمائیں اور یہ بھی غور کریں کہ دونوں کام یا تو ایک مجاھد سر انجام دیتا ہے یا پھر فوجی اب اسی اجرو ثواب کو چرانے اور مجاھدین کی شان و شوکت کو چرانے کی خاطربعض لوگوں نے سیاست اور کھیلوں خاص کر کرکٹ میں جہاد کی آیات کا استعمال شروع کرکے لوگوں کو ورغلانا شروع کر دیا-
جیسا کہ ایک معروف آیت نصر من اللہ و فتح قریب کو جہاد فی سبیل اللہ کی بجائے کرکٹ و سیاست پہ فٹ کیا جاتا ہے اور اجرو ثواب چوری کرنے کی کوشش کی جاتی ہے
اب بھلا بندہ ان لوگوں سے پوچھے بھئی ٹھیک ہے یہ کرکٹ تم کافروں کےخلاف بطور کھیل کھیلتےہو مگر کیا اس سے مظلوموں کو انصاف ملتا ہے۔کافروں کے ہاتھوں شہید ہونے والے لواحقیقن کو انصاف ملتا ہے ایسے ہی ہمارے جمہوری لوگ ہیں جو جہاد کی الف ب سے بھی واقف نہیں مگر دعوے اس جمہوریت سے جہاد کے کرتے ہیں کہ جو خود قرآن و حدیث کی رو سے کفریہ نظام ہے-
ایسے لوگ ذہن نشین کر لیں جہاد و رباط اور مجاھدین کے لئے رب کی طرف سے نازل ہوئی آیات کو کرکٹ و جمہوریت پہ فٹ کرنا جہاد و رباط کی چوری ہے اور ان آیات کے نزول کے مقصد سے انکار ہے اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ کتے لڑانے والوں،کبوتر بازوں و دیگر کئی قبیح کھیلوں میں جہادی آیات کو بطور فتح استعمال کیا جاتا ہے-
حالانکہ ایسے کاموں کی اسلام میں سخت ممانعت بھی ہے اللہ تعالی ہم کو جہاد و رباط جیسے عظیم فریضوں کی چوری سے محفوظ فرمائے آمین