مبینہ آڈیوز کی تحقیقات کیلئے قائم انکوائری کمیشن کا معاملہ.انکوائری کمیشن کے لیے کیمرے، کمپیوٹر، پرنٹر و دیگر سامان واپس بھجوا دیا گیا.سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے انکوائری کمیشن کی کاروائی روک دی تھی. انکوائری کمیشن نے جدید آلات کے ذریعے کاروائی کو آگے بڑھانا تھا. جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن نے کاروائی ملتوی کردی ہے.

مبینہ آڈیوز انکوائری کمیشن کے دوسرے اجلاس کا حکمنامہ جاری کر دیا گیا محکمنامہ میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے پانچ ججز کا 26 مئی کا جاری کردہ آرڈر پڑھ کر سنایا، اٹارنی جنرل نے کہا درخواست گزاروں نے انکوائری کمیشن کے خلاف مفاد عامہ کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کیا، اٹارنی جنرل سے پوچھا کیا انکوائری کمیشن کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے سامنے فریق بنایا گیا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ صدر سپریم کورٹ بار اور سیکرٹری سپریم کورٹ بار نے کمیشن کو بذریعہ سیکرٹری فریق بنا رکھا ہے، اس تناظر میں انکوائری کمیشن کا اجلاس ملتوی کیا جاتا ہے،

آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن ،جسٹس قاضی فائز عیسی اور کمیشن کے ارکان سپریم کورٹ پہنچ گئے. اٹارنی جنرل بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے ،آج آڈیو لیکس کمیشن نے گواہان کو طلب کر رکھا تھا.سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کل کمیشن کو کاروائی سے روک دیا تھا سپریم کورٹ نے کل کمیشن کے قیام کا نوٹیفکیشن بھی معطل کر دیا تھا.

مبینہ آڈیو لیکس کی انکوائری کیلئے جوڈیشل کمیشن کا دوسرا اجلاس شروع ہو گیا،جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن کاروائی کر رہا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ اور بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹسز عامر فاروق اور نعیم افغان کمیشن کا حصہ ہیں ،اٹارنی جنرل کمیشن کے سامنے پیش ہوئے،اٹارنی جنرل نے گزشتہ روز کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انکوائری کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں تھا تو کام سے کیسے روک دیا،سپریم کورٹ رولز کے مطابق فریقین کو سن کر اس کے بعد کوئی حکم جاری کیا جاتا ہے،جسٹس قاضی فائز نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کیوں کل کمرہ عدالت میں تھے نوٹس تھا یا ویسے بیٹھے تھے،اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ مجھے زبانی بتایا گیا تھا کہ آپ عدالت میں پیش ہوں،سماعت کے بعد مجھے نوٹس جاری کیا گیا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ایک جج کے خلاف الزام پر سیدھا ریفرنس جائے تو وہ پوری زندگی بھگتتا رہے گا

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عبدالقیوم صدیقی کو روسٹرم پر بلا لیا ان کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے انہیں کمیشن کی کارروائی پرکوئی اعتراض نہ ہو ان کے دوسرے فریق نے ہمیں درخواست بھیجی انکے دوسرے فریق نے کہا کہ وہ میڈیکل چیک اپ کے لیے لاہور ہیں، کہا جب لاہورآئیں توان کا بیان بھی لے لیں،عابد زبیری اور شعیب شاہین نے آج آنے کی زحمت بھی نہیں کی، کیا انہیں آ کر بتانا نہیں تھا کہ کل کیا آرڈ ہوا ،

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو جج کا حلف پڑھنےکی ہدایت کی ، انہوں نے حلف پڑھا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حلف میں لکھا ہے فرائض آئین و قانون کے تحت ادا کروں گا یہ انکوائری کمیشن ایک قانون کے تحت بنا ہے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمیشن بنایا گیا ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں شعیب شاہین روزانہ ٹی وی پربیٹھ کر وکلا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہیں ہمیں قانون سکھانے آگئے ہیں رولز کے مطابق وکیل اپنے مقدمے سے متعلق میڈیا پر بات نہیں کر سکتا کوئی بات نہیں سکھائیں ہم تو روزانہ قانون سیکھتے ہیں ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سانحہ کوئٹہ کا ذکرکرتے ہوئے جذباتی ہوگئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس طرح کی دردناک تحقیقات کرنی پڑتی ہیں اب ہمیں ٹاک شوز میں کہا جائے گا ہم آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں حلف کے تحت اس کمیشن کی اجازت نہ ہوتی تو معذرت کر کے چلا گیا ہوتا ٹی وی پر ہمیں قانون سکھانے بیٹھ جاتے ہیں یہاں آکر بتاتے نہیں کہ اسٹے ہوگیا ہے ایک طرف پرائیویسی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنی آڈیوز پر ٹاک شو میں بیٹھے ہیں ہم ججز ٹاک شو میں جواب تو نہیں دے سکتے بطور وکیل ہم بھی اس لیے آرڈر لیتے تھے کہ اگلے روز جا کر متعلقہ عدالت کو آگاہ کرتے ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ یہ ٹویٹر کیا ہے؟ پتہ تو چلے کہ کون آڈیو جاری کررہا ہے، اصلی ہیں بھی یا نہیں ہوسکتا ہے جن لوگوں کی آڈیوزہیں انہوں نے خود جاری کی ہوں ہوسکتا ہے عبدالقیوم صدیقی نے اپنی آڈیو جاری کی ہو تحقیقات ہونگی تو یہ سب پتا چل سکے گا جج کو پیسے دینے کی بات ہورہی ہے مگر تحقیقات پر اسٹے آجاتا ہے ججز کے بارے میں آڈیوز آئیں تحقیقات تو ہونی چاہیں پرائیویسی کی آڑ میں کیا کسی الزام کی تحقیقات نہیں ہونی چاہیے مجھے کوئی مرضی کے فیصلے کے لیے رقم آفر کرے تو کیا یہ گفتگو بھی پرائیویسی میں آئے گی؟ کیا راستے پر کوئی حادثہ ہوجائے تو اس کی ویڈیو جاری کرنا پرائیویسی کے خلاف ہوگا؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ٹوئٹر ایک سافٹ ویئر ہے، ہیکر کا مجھے علم نہیں شاید میڈیا والوں میں سے کوئی جانتا ہو

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ حیران ہوں آپ نے کل ان نکات کو رد نہیں کیا، شعیب شاہین نے میڈیا پر تقریریں کر دیں، یہاں آنے کی زحمت نہ کی پرائیویسی ہمیشہ گھر کی ہوتی ہے کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جاسکتا باہر سڑکوں پر جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں کیا یہ بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں؟ آپ نے کل عدالت کو بتایا کیوں نہیں ان کے اعتراضات والے نکات کی ہم پہلے ہی وضاحت کرچکے ابھی وہ اسٹیج ہی نہیں آئی تھی نہ ہم وہ کچھ کر رہے تھے کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں کیا گیا تھا توکام سے کیسے روک دیا، ہم کمیشن کی مزید کارروائی نہیں کر رہے ہم آج کی کارروائی کا حکم نامہ جاری کریں گے

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہمیں زندگی میں بعض ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جو ہمیں پسند نہیں ہوتے، ہمیں پٹیشنرز بتا رہے ہیں کہ حکم امتناع ہے آپ سن نہیں سکتے، وکلا کوڈ آف کنڈکٹ کو کھڑکی سے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا ہے، ہم بعض کام خوشی سے ادا نہیں کرتے لیکن حلف کے تحت ان ٹاسکس کو ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں، ہمیں اس اضافی کام کا کچھ نہیں ملتا، ہمیں کیا پڑی تھی سب کرنےکی

آڈیو لیکس کمیشن کی کارروائی روک دی گئی،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم مزید کارروائی نہیں کر رہے،ہم مزید آگے نہیں بڑھ سکتے، آج کی کارروائی کا حکمنامہ جاری کریں گے،

واضح رہے کہ آڈیو لیکس کے معاملے پر وفاقی حکومت نے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا ہے، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کمیشن میں بلوچستان ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شامل ہیں۔

آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن نے کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کر دیا

عابد زبیری نے مبینہ آڈیو لیک کمیشن طلبی کا نوٹس چیلنج کردیا

تحریک انصاف کی صوبائی رکن فرح کی آڈیو سامنے

سردار تنویر الیاس کی نااہلی ، غفلت ، غیر سنجیدگی اور ناتجربہ کاری کھل کر سامنے آگئی 

سپریم جوڈیشل کونسل کے ہوتے ہوئے کوئی کمیشن قائم ہونا ممکن نہیں، چیف جسٹس نے واضح کر دیا 

زیر تحقیق 9 آڈیوز کے ٹرانسکرپٹ جاری

Shares: