سپریم جوڈیشل کونسل کے ہوتے ہوئے کوئی کمیشن قائم ہونا ممکن نہیں،چیف جسٹس

0
47
supreme

سپریم کورٹ ،مبینہ آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی، وفاقی حکومت نے پانچ رکنی لارجر بنچ پر اعتراض اٹھا دیا ،حکومت کی جانب سے اعتراض اٹارنی جنرل نے کیا ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس کو اس بنچ میں شامل نہیں ہونا چاہیے، بنچ سے الگ ہونے کا فیصلہ کرنا چیف جسٹس کا استحقاق ہے، مناسب یہی ہے کہ چیف جسٹس اس مقدمے کو نہ سنیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بنچ پر اعتراض کا آپ کو پورا موقع دیا جائے گا، 9 مئی کے سانحے کے بعد عدلیہ کے خلاف بیان بازی بند ہو گئی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں،عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے،حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی،
حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کے مطابق بینچ میں نہیں بٹھا سکتیاگر آپ نے ہم سے مشورہ کیا ہوتا تو ہم آپ کو بتاتے،9 مئی کے واقعہ کا فائدہ یہ ہوا کہ جوڈیشری کے خلاف جو بیان بازی ہو رہی تھی وہ ختم ہو گئی،حکومت ہم سے مشورہ کرتی تو کوئی بہتر راستہ دکھاتے ،آپ نے ضمانت اور فیملی کیسز کو بھی اس قانون سازی کا حصہ بنا دیا،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کمیشن میں نامزدگی کیلئے مشاورت بھی نہیں کی گئی عدلیہ میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی گئی،اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے عدلیہ میں تقسیم کی کوشش نہیں کی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اگر کوشش نہیں کی تو بھی ایسا ہوا ضرور، ہر بات کھل کر قانون میں نہیں دی گئی ہوتی، آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے، آرٹیکل 175 کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، عدلیہ اصلاحات بل کس کے مشورے سے لایا گیا؟ حکومت نے فیملی سمیت ہر مقدمہ ہی کمیٹی کو بھجوا دیا تھا، اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ عدلیہ اصلاحات بل کیس میں بھی فل کورٹ کی استدعا کی تھی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا خود عدلیہ اصلاحات بل کیخلاف ہے، عدلیہ اصلاحات قانون خود کہتا ہے 184/3 کے مقدمات پانچ رکنی بنچ سنے گا، اگر لارجر بنچ نے اپیل سننی ہو تو ججز کئی دستیاب نہیں ہونگے،ہمارے انتظامی امور میں مداخلت کرینگے تو کیسے ریلیف ملے گا؟

اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ عدلیہ اصلاحات بل پر اعتراض دور کر دینگے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اعتراض دور کریں کس نے روکا ہے؟ اعتراضات دور ہوگئے تو شاید ریلیف بھی مل جائے، آٹھ رکنی بنچ بنانے کی یہی وجہ ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ اختیارات سے متعلق قانون میں حکومت نے پانچ ججز کے بینچ بنانے کا کہہ دیا، نئے قانون میں اپیل کیلئے پانچ سے بھی بڑا بینچ بنانے کا کہہ دیا،ہمارے پاس ججز کی تعداد کی کمی ہے، حکومت بتائے اس نے سپریم کورٹ کے بارے میں قانون سازی کرتے وقت کس سے مشورہ کیا، سپریم کورٹ کے انتظامی امور میں پوچھے بغیر مداخلت ہوگی تو یہ ہوگا،ہمیں احساس ہے کہ آپ حکومت پاکستان کے وکیل ہیں، تمام اداروں کو مکمل احترام ملنا چاہیے، یہ سب انا کی باتیں نہیں آئین کی باتیں ہیں،آئین اختیارات کی تقسیم کی بات کرتا ہے،

دوران سماعت 9 مئی کے واقعات کا بھی تذکرہ ہوا،. چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل نفیس آدمی ہیں آپکا اور حکومت کا احترام کرتے ہیں،اب شدت سے سب کو احساس ہو رہا ہے کہ اداروں کا احترام ضروری ہے، 9 مئی کے واقعات کا فائدہ عدلیہ کو ہوا،عدلیہ کو فائدہ ایسے ہوا کہ ہمارے خلاف ہونے والی بیان بازی رک گئی، بدقسمتی سے عدلیہ کیخلاف بیان بازی رکنے کیلئے اتنے بڑے سانحہ کی ضرورت پڑی،ہر آئینی و قانونی ادارے کا تحفظ اور احترام ضروری ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اگر جھگڑا کرنا ہے تو تیاری کرکے آئیں،سپریم کورٹ کے انتظامی اختیارات میں مداخلت بند کی جائے،عدلیہ وفاقی حکومت کا حصہ نہیں ، ہم انا کی بات نہیں آئین کی بات کر رہے ہیں ،

صدر سپریم کورٹ بار کے وکیل شعیب شاہین نے درخواست پر دلائل کا آغاز کر دیا ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آڈیو لیک کمیشن کی تشکیل میں مشاورت کا حصہ نہیں تھا۔ معاملہ آپ سے متعلقہ تھا اس لئے سینئر جج کو کمیشن کا سربراہ بنایا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس ادارے کا سربراہ ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ 2017 کے قانون کے مطابق چیف جسٹس سے مشاورت ضروری نہیں ،کمیشن کی تشکیل کا 2017 کا قانون کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ا چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کو آئینی روایات کی پاسداری کرنی چاہیے کمیشن کی تشکیل کیلئے مشاورت کا 1956 کے قانون میں بھی نہیں لکھا تھا۔ وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ساری آڈیو ایک ہی ٹوئیٹر اکاونٹ سے جاری ہوتی ہے۔آڈیو لیک ہونے کے بعد وفاقی وزراء اس پر پریس کانفرنسز کرتے ہیں۔ ٹوئیٹر پر ہیکر کے نام سے گمنام اکاونٹ ہے،ہیکر کے نام سے اکاونٹ سے آڈیو ویڈیو ریلیز ہوتی ہیں۔یہ اکاونٹ ستمبر 2022 میں بنایا گیا۔ فروری 2023 سے گمنام اکاؤنٹ سے آڈیو ویڈیوز لیک ہوئی۔ ہماری درخواست کمیشن کی تشکیل کیخلاف ہیں۔ فون ٹیپنگ بذات خود غیر آئینی عمل ہے، انکوائری کمیشن کے ضابطہ کار میں کہیں نہیں لکھا کہ فون کس نے ٹیپ کیے، حکومت تاثر دے رہی ہے فون ٹیپنگ کا عمل درست ہے،حکومت تسلیم کرے کہ ہماری کسی ایجنسی نے فون ٹیپنگ کی،

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فون ٹیپنگ پر بے نظیر بھٹو حکومت کیس موجود ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی اصول طے کیے ہیں، کس جج نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی اس کا تعین کون کرے گا؟ وکیل شعیب شاہین نے کہاکہ آرٹیکل 209 کے تحت یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کا اختیار انکوائری کمیشن کو دے دیا گیا، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپنگ غیر قانونی عمل ہے، آرٹیکل 14 کے تحت یہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے، وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ حکومت پہلے تسلیم کرے کہ آڈیوز اس کے اداروں نے ریکارڈ کرکے لیک کی ہیں، اگر آڈیوز کی ریکارڈنگ قانون کے مطابق ہے تو اعتراض نہیں،چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ فرض کیا گیا ہے کہ ریکارڈنگ قانون کے مطابق کی گئی،سپریم کورٹ کا بینظیر بھٹو کیس میں 1998 کا فیصلہ کچھ اور کہتا ہے، فیصلے کے مطابق کالز کی ریکارڈنگ عدالت کی اجازت سے ہی ہوسکتی ہیں، ججز کی آڈیوز کو بطور شواہد تسلیم کرکے مس کنڈکٹ کا تعین کیا جا رہا ہے، کیا اب کمیشن سفارش کرے گا کہ جج مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا ہے؟فیئر ٹرائل ایکٹ بھی ریکارڈنگ کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے، وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ریکارڈنگ پیکا ایکٹ 2016 اور ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1996 کی بھی خلاف ورزی ہے، بینظیر بھٹو کیس بھی 1996 کے قانون کی خلاف ورزی پر بنا تھا، فیئرٹرائل ایکٹ کے مطابق مشکوک افراد کی ریکارڈنگ کی جا سکتی ہے، ریکارڈنگ کیلئے متعلقہ پولیس یا حساس ادارے کا مجاز افسر درخواست دے سکتا ہے،مشکوک افراد کا متعلقہ کیس سے تعلق ہونا بھی ضروری ہے،قانون کے مطابق جاسوسی کے اجازت نامہ پر دستخط ہائی کورٹ کا جج کر سکتا ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس فائز عیسی کیس میں بھی قرار دیا گیا کہ ججز کی جاسوسی قانون کیخلاف ہے، جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سب سے اہم سوال عدلیہ کی آزادی کا ہے، کالز ریکارڈنگ آئین کے آرٹیکل 14 کی بھی خلاف ورزی ہے،

وکیل شعیب شاہین نے عدالت میں کہا کہ ایک نجی چینل نے ایک ادارے کے سربراہ کی ویڈیو چلائی تو اس پر دس لاکھ کا جرمانہ ہوا، نجی چینل نے کہا ہمیں انفارمیشن ملی اور ہم نے چلایا،ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا جب تک تصدیق نہ ہو آڈیو ویڈیو نہیں چلائی جاسکتی ہے، اگر ایسی آڈیو ویڈیو کسی دشمن تک پہنچ جائے تو ملک کی کیا عزت رہے گی،اس وقت عدلیہ کو سب سے زیادہ کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،اس وقت تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز عدلیہ ہے، عوام کا ہجوم اب خود انصاف کرنے لگا ہے، کمیشن نے پورے پاکستان کو نوٹس کیا کہ جس کہ پاس جو مواد ہے وہ جمع کروا سکتا ہے،کوئی قانونی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہا کہ کمیشن کا قیام آرٹیکل 209کی بھی خلاف ورزی ہے،وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ سپریم کورٹ افتحار چوہدری اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں فیصلے دے چکی ہے آرٹیکل 209 ایگزیکٹو کو اجازت دیتا ہے کہ صدراتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج سکتی ہے،جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بظاہر وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججز کے خلاف مواد اکٹھا کر کے مس کنڈیکٹ کیا ہے،وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ جس ملک کا عدالتی نظام مضبوط ہوتا ہے وہاں حقوق کا تحفظ ہوتا ہے، اگر ہم تماشائی بن کر بیٹھے رہے گے تو ریاستی ادارے تباہ ہو جائیں گے، کمیشن اپنے ٹی او آرز سے باہر نہیں جا سکتا ہے، یہ بھی دیکھنا ہو گا یہ آڈیوز ریکارڈ کس نے کی ہیں،

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے آئین میں اختیارات کی تقسیم کی خلاف ورزی کی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے انکوائری کمیشن نے ہر کام جلدی میں کیا ہے جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ججز اپنی مرضی سے کیسے کیمشن کا حصہ بن سکتے ہیں،میٹھے الفاظ استعمال کر کے کور دینے کی کوشش کی جارہی ہے بظاہر اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے، یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب یہ آڈیو چلائی جا رہی تھی تو کیا حکومت یا پیمرا نے اسے روکنے کی کوئی ہدایت جاری نہیں کی؟ وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ پیمرا نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی، حکومت نے بھی پیمرا سے کوئی بازپرس نہیں کی،اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ پیمرا کی حد تک عدالت سے متفق ہوں،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے، عدلیہ کی آزادی کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں، آج ہی عبوری ریلیف اور سماعت پر حکمنامہ جاری کرینگے،سپریم جوڈیشل کونسل کے ہوتے ہوئے کوئی کمیشن قائم ہونا ممکن نہیں، چیف جسٹس نے واضح کر دیا ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے حکومت نے کمیشن جلد بازی میں بنایا،جلد بازی میں کیے گئے کام اکثر غلط ہو جاتے ہیں،آرٹیکل 209 کا معاملہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے،وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ کمیشن کے آرڈر میں ذکر نہیں آڈیو کیسے ریکارڈ کی گئی کمیشن اپنے ٹی او آرز کا پابند ہے کمیشن نے پہلے اجلاس پر پورے پاکستان کو بزریعہ اشتہار نوٹس جاری کردیا، آڈیوز کو کس نے بنایا وہ کسی کو معلوم نہیں۔ معاملہ کے جائزہ کیلئےکمیشن کی کاروائی کو معطل کر دیا جائے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنس دائر کرنا ایگزیکٹیو کا اختیار ہے۔ جج سے متعلق معاملہ تو پہلے ہی جوڈیشل کونسل میں زیر التواء ہے۔ بظاہر یہ معاملہ اختیارت کی تقسیم کے آئینی اصول سے منافی ہے۔ جج کیخلاف انکوائری صرف جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے۔

واضح رہے کہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن نے تحقیقات کیلئے طلبی کے نوٹس جاری کرنا شروع کردیے 4 شخصیات کو 27 مئی کو طلب کرلیا گیا ہے جن میں صدر سپریم کورٹ بارعابد زبیری اور خواجہ طارق رحیم ایڈوکیٹ بھی شامل ہیں انکوائری کمیشن کا اجلاس 27 مئی کی صبح 10 سپریم کورٹ میں ہو گا۔

واضح رہے کہ آڈیو لیکس کے معاملے پر وفاقی حکومت نے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا ہے، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کمیشن میں بلوچستان ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شامل ہیں۔

آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن نے کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کر دیا

عابد زبیری نے مبینہ آڈیو لیک کمیشن طلبی کا نوٹس چیلنج کردیا

تحریک انصاف کی صوبائی رکن فرح کی آڈیو سامنے

سردار تنویر الیاس کی نااہلی ، غفلت ، غیر سنجیدگی اور ناتجربہ کاری کھل کر سامنے آگئی 

Leave a reply