کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد 19 اگست کو میری اور میرے ساتھ خاتون صحافی سمیرا خان کی کابل آمد ہوئی۔ پچھلی بار 27 مئی 2021 کو ہم آئے تو ایک الگ سا نظام، سسٹم، ماحول اور حکومت تھی اس بار ہماری آمد ایک الگ فکر کے ساتھ تھی۔
پاکستان کی جانب سے طورخم کراس کرکے زیرو پوائنٹ پر افغان طالبان کی جھنڈے لہرائے دکھائے دئیے۔ ایک طرف پاکستان کے فرنٹیئر کور کے جوان اور دوسری طرف طالبان کے جنگجو کھڑے تھے البتہ فرق یہ تھا کہ طالبان کے جنگجو کرسیوں پر بیٹھے تھے جب کہ پاکستانی ایف سی کے اہل کار الرٹ کھڑے تھے۔ تاہم اس دوران ہم سے کسی قسم کی زیادہ تفتیش نہیں کی گئی۔
جلال آباد کی طرف سفر کے دوران ڈرائیور سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ ایک نقشہ ہمارے ذہن میں موجود ہو۔ ڈرائیور سے جب ہم نے طالبان کے کنٹرول کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ طالبان ہو یا کوئی اور اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہمیں امن اور ترقی کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں طالبان کی جانب سے سیکیورٹی کی پریشانی نہیں ہے تاہم معاشی مستقبل کی فکر ضرور ہے۔ بہر صورت وہ طالبان کی آمد سے خوش دکھائے دے رہے تھے۔
صوبہ لغمان میں ایک ریسٹورنٹ پر رکیں ریسٹورنٹ کی باہر طالبان کی بکتر بندی گاڑی، جو انہوں نے افغان فورسز سے قبضے میں لی تھی، کھڑی تھی طالبان کے سیکیورٹی کے اہل کار اندر کھانا کھا رہے تھے ان سے میں نے کچھ معلومات لینے کی کوشش کی تاہم انہوں نے زیادہ معلومات دینے سے گریز کیا کہ ہمیں اجازت نہیں ہے۔
جلال آباد شہر میں داخل ہوئے تو طالبان مین بازار میں مختلف جگہوں پر کھڑے نظر آئے۔ سمیرہ خان نے مائک اٹھایا اور رپورٹ بنانے لگی۔ طالبان اہل کاروں کی جانب سے ہمیں کچھ نہیں کہا گیا البتہ جب لوگ ہمارے ارد گرد زیادہ ہوگئے تو تو ٹریفک جام ہوا جس کے بعد طالبان کی جانب سے ہمیں جلد ختم کرنے کا کہا گیا۔
طورخم بارڈر سے کابل تک طالبان مختلف جگہوں پر کھڑے تھے تاہم ہم سے زیادہ پوچھ گچھ نہیں کی گئی طالبان سیکیورٹی کے اہل کار جب ہمارے ساتھ خاتون کو دیکھتے تو روکنے کے بجائے جانے کا اشارہ کرتے تھے۔
کابل شہر پہنچے تو جگہ جگہ طالبان کھڑے نظر آئے سیکیورٹی بھی سخت تھی ہر طرف طالبان کی سفیڈ جھنڈے دکھائی دے رہے تھے طالبان اہل کار بڑی گاڑیوں میں گشت کرتے نظر آئے۔
پچھلی بار جب ہم کابل آئے تھے تو جگہ جگہ افغان سیکیورٹی فورسز کی چیک پوائنٹس ہوتے تھے کابل کے ہر روڈ پر سفر کرنا مشکل تھا تاہم اب کی بار تمام راستے کھلے ہیں عام لوگ ہر راستے سے کابل میں گھوم پھر سکتے ہیں چیک پوائنٹس ہٹا دئیے گئے ہیں تاہم مختلف جگہوں پر طالبان نے ناکے لگائے ہوئے ہیں اور لوگوں سے پوچھ گچھ بھی ہوتی ہے البتہ طالبان کی جانب سے ان ناکوں پر رویہ بہت نرم رکھا جا رہا ہے۔
کابل کی صورت حال کے حوالے سے میں بات کروں تو اس کو میں دو کیٹیگریز میں تقسیم کروں گا۔
کابل اور افغانستان کے عوام :
کابل اور افغانستان کے عوام کے حوالے سے میں بات کروں تو جب سے طالبان نے کابل کا ٹیک اوور کرلیا ہے لوگ سیکیورٹی سیچویشن کو کافی بہتر محسوس کررہے ہیں کیوں کہ ان پندرہ دنوں میں کرائم ریٹ بہت کم ہوگیا ہے کابل اور افغانستان کی عوام کو چوروں سے سب سے زیادہ خوف رہتا ہے تاہم ان دںوں میں اس میں بہت زیادہ کمی آچکی ہے۔ تاہم افغان عوام مستقبل کے حوالے سے پریشان دکھائی دے رہے ہیں جن لوگوں کی نوکریاں ہیں وہ اپنے نوکریوں کے حوالے سے پریشان ہے باوجود یہ کہ طالبان نے ان کو ان کی نوکریوں کے حوالے سے تسلی دی ہے لیکن اس کے باوجود عوام مستقبل کے حوالے سے پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔
لوگوں کو ایک اہم ایشو اس وقت طالبان کی جانب سے حکومت کا باقاعدہ انتظامی ڈھانچہ کھڑا نہ کرنے کا بھی ہے کیوں کہ طالبان اس وقت سیکیورٹی کے حوالے سے منظم نہیں ہے طالبان کی سیکیورٹی اہل کاروں کی کوئی مختص یونیفارم نہیں ہے جس سے طالبان اور دوسرے لوگوں کے درمیان تفریق نہیں کی جاسکتی ہے اس بنیاد پر کوئی بھی طالبان کے نام کا استعمال کرکے لوگوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس بنا پر افغان عوام چاہتی ہے کہ لوگوں کو ان کے نمائندے بتائے جائے جس کے سامنے وہ اپنے مسائل لے کر جائے۔
اسی طرح اب تک بینک، اسکولز، کالجز، کمپنیاں باقاعدہ نہیں کھلی ہیں جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
افغانستان اور کابل کی صورت حال۔
کابل کی سیکیورٹی سیچویشن کافی بہتر ہے لوگ خود کو محفوظ تصور کررہے ہیں کابل ائیرپورٹ کی صورتحال اس وقت خراب ہے۔ بنیادی طور پر ائیرپورٹ کے حالات کے زمہ دار اگر میں امریکہ پر عائد کروں تو میں غلط نہیں ہوں گا۔
امریکہ نے سب سے پہلے اپنے ساتھ لوگوں کو بیرون ملک لے جانے کا اعلان کیا۔ لوگوں کو ایمیلز کیے۔ تاہم ان لوگوں کو جنہوں نے ان کے ساتھ کام کیے ہیں لے جانے کے لئے کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔
اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہزاروں لوگ ائیرپورٹ کی طرف گئے ائیرپورٹ پر لوگوں کا ہجوم بنا امریکہ نے بغیر تصدیق کیے لوگوں کو طیارے میں ڈالا اور ان کو باہر لے جایا گیا اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہر ایک نے باہر جانے کی کوشش کی اور اب تک ان کو امید ہے کہ ہمیں بھی باہر جانے کا موقع ملے گا۔ اس وجہ سے ائیرپورٹ کی صورتحال انتہائی خراب ہوگئی اور داعش کو اس صورت حال سے فایدہ اٹھانے کا موقع ملا۔
ایک اور مسئلہ جو اس وقت طالبان کو درپیش ہے اور افغانستان میں امن کے حوالے سے ایک چیلنج دیکھا جا رہا ہے وہ پنجشیر کی صورتحال ہے۔ پنجشیر کی صورتحال اس وقت یہ ہے کہ طالبان اور احمد مسعود کے درمیان اب تک مذاکرات جاری ہے طالبان کی کوشش ہے کہ پنجشیر بھی سرنڈر کریں اور کوئی خون خرابہ نہ ہو۔ میرے اطلاعات کے مطابق کافی حد تک مذاکرات کامیابی کی طرف جا رہے ہیں امید ہے دونوں طرفین مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کریں گی۔
طالبان کی ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی کے ساتھ بھی اس وقت مذاکرات جاری ہے ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ کے ساتھ ملاقات میں معلوم ہوا کہ دونوں رہنماؤں کو ان کی سیکیورٹی کے حوالے سے تسلی دی گئی ہے طالبان کی جانب سے ان کو سیکیورٹی بھی دی گئی ہے تاہم وہ اس وقت انتہائی مایوس دکھائی دے رہا ہے کیوں کہ ان کو ان کے مستقبل کے حوالے سے، حکومت میں شمولیت کے حوالے سے تسلی نہیں ملی ہے کہ ان کو حکومت میں شامل کیا جائے گا یا نہیں۔
حزب اسلامی کے سرابراہ جناب گلبدین حکمتیار صاحب سے ہم نے ایک ملاقات میں حکومت میں ان کی شمولیت کے حوالے سے پوچھا تو ان کا کہںا تھا کہ ہم نے خود طالبان سے حکومت میں حصہ کا مطالبہ نہیں کیا ہے تاہم افغان عوام کے لیے ہم سے جو بھی خدمت لیا جائے گا ہم اس کے لیے تیار ہوں گے۔
حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمتیار کا کہںا تھا کہ ہم کابل میں نئی تبدیلیوں کی حمایت کرتے ہیں گلبدین حکمتیار نے طالبان کے خواتین اور حجاب کے حوالے سے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ مغرب ہم پر اپنا حجاب مسلط نا کریں پردہ ہماری روایت اور اقدار کا حصہ ہے۔ انہوں نے بھارت پنجشیر کے حوالے سے بھارت کی موقف اور کردار کی مخالفت کرتے ہویے کہا کہ بھارت کو مثبت رول اپنانا چاہیے جس طرح پاکستان نے امن کی بات کی ہے اس طرح بھارت کو بھی جنگ کی بجائے امن کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔
ہم پہلے پاکستانی تھے جنہوں نے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے ساتھ آزاںہ طور پر ملاقات کی۔ ذبیح اللہ مجاہد نے صحافیوں کی تحفظ کے حوالے سے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ایک باقاعدہ کمیٹی بنائی جائے جو صحافیوں کے تحفظ حوالے سے کام کریں گی۔ انہوں نے انتظامی ڈھانچہ کھڑا کرنے کے حوالے سے بھی تفصیلی گفتگو کی۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ تمام ممالک کے ساتھ ہم اچھے تعلقات چاہتے ہیں پاکستان ہمارا پڑوسی ملک ہے ہم اسے اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔