کچے گھروندوں کے دیمک زدہ باسی . تحریر: عرفان محمود گوندل

0
46

قدرت نے انسان کو زندہ رہنے اور بستیاں بسانے کے لئے مختلف نشانیاں بھیجیں ہیں۔ دو جاندار خاص طورپرقابل ذکر ہیں۔ ایک شہد کی مکھیاں اور دوسرا دیمک۔ دیکھنے کو دیمک ایک بے ضررسا کیڑا ہے لیکن اندرہی اندر جتنا نقصان یہ پہنچاتا ہے انسانوں کے پہنچائے ہوئے نقصان سے پھر بھی کم ہے۔ بیمار لوگوں کے بارے میں عوام الناس کہتی ہے کہ ان کو بیماری دیمک کی طرح چاٹ گئی ہے۔۔ کچھ ایسی ہی مماثلت ہماری عوام اور دیمک میں ہے۔ جب قانون بے اثرہوجائے۔ جب معاشرے کو تعلیم دینے والے بھاگ جائیں۔ جب معاشرےکی راہنمائی کرنے والے لٹیروں کا روپ دھارلیں، جب قانون امیراورغریب میں فرق کرنے لگے، جب دولت ہی سب کچھ ہو، جب اقرباء پروری کا راج ہو، تو پھرمعاشرے شترِبے مہار( ایسا اونٹ جو جنگل میں آوارہ پھرتا ہو) کی طرح جس طرح چاہے منہ اٹھا کے چل پڑتے ہیں۔

میں جب بھی بڑے بڑے شہروں کے محلوں کی تنگ و تاریک گلیوں سے گزرتا ہوں تو مجھے دیمک کے گھروندے یاد آتے ہیں،۔ بچپن میں جب پاؤں کی ٹھوکر سے دیمک کے گھروندے کو توڑتے تھے تو مٹی کے گھرندوں کے نیچے سے ایک کالونی نظرآتی تھی۔ جس میں بے ترتیب گلیاں مکانات اور چلتے پھرتے دیمک کے کیڑے نظر آتے تھے۔ کچے گھروندے ٹوٹ جانے سے دیمک کے کیڑوں میں افراتفری مچ جاتی تھی، کوئی اناج اٹھائے بھاگ رہا ہوتا تھا، کوئی جان بچانے کے لئے، کوئی اپنے بچوں کو لئے، ہرکوئی جس سمت جس کا منہ لگتا تھا بھاگتا دکھائی دیتا تھا۔

دیمک، شہد کی مکھیاں اور ہم ، سب ایک ہی طرح کی کالونیوں میں رہتے ہیں۔ ہماری کالونی میں ملکہ بادشاہ سپاہی اور مزدور ہوتے ہیں. ہمارے ہاں بچوں کی پیدائش و پرورش ہوتی ہے. جیسے شہد کی مکھیاں اوردیمک اپنا بادشاہ اورملکہ چنتے ہیں ایسے ہی ہم بھی چنتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں بادشاہ اور ملکہ نہیں بلکہ ایم این اے اور ایم پی اے چنے جاتے ہیں۔دیمک کی ملکہ اوربادشاہ کی طرح جب ہماری ملکہ اور بادشاہ کے پر نکل آتے ہیں تو یہ آڑ کر دوسری جگہ اپنی کالونی بنا لیتے ہیں. جیسے ہمارے ہاں ایم پی اے اور ایم این اے منتخب ہونے کے بعد یورپ امریکہ اور کینیڈا میں گھر بنا لیتے ہیں، اگر ایک ہی جگہ دو بادشاہ یا ملکہ ہوں تو شہد کی مکھیوں اور دیمک کی طرح یہ نیا قبیلہ آباد کرلیتے ہیں اور اپنی حکمرانی کو برقرار رکھتے ہیں۔

جیسے ہمارے ہاں ایک ملک کے دو بادشاہ بن جائیں تو پھر آدھا تمھارا آدھا ہمارا کا نعرہ لگا کر تقسیم کرلیتےہیں۔ دیمک کی کالونیوں میں ہماری کالونیوں کی طرح مزدور اور سپاہی چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں. انکی زندگی اسی کام میں گزرتی ہے.عجیب بات یہ ہے کہ دونوں کا کام اندھیرے کا ہے. دیمک کے سپاہی اور مزدور پیدائش کے بعد سے ہی اندھے ہو جاتے ہیں. اندھیری سرنگوں میں ان کو آنکھوں کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اس لئے آنکھیں ہوتے ہوۓ بھی یہ اندھے ہی ہوتے ہیں۔ ہماری کالونیوں میں مزدور اور سپاہی نوکری حاصل کرنے کے بعد اندھے ہوجاتے ہیں ہمارے سپاہیوں اور مزدورکو بھی آنکھوں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ غلام معاشروں میں اندھے مزدور بہتر کام کرتے ہیں۔ جو دیکھنے والے ہوتے ہیں ان کے پر نکل آتے ہیں پھر وہ مزدور نہیں رہتے بلکہ حاکم بن کے اڑ جاتے ہیں اور کہیں اور مزدوروں سے الک تھلگ کالونیاں بنا کے رہتے ہیں۔

دیمک کے کیڑے ہم انسانوں سے کئی لحاظ سے بہتر ہوتے ہیں۔ ان میں لالچ اور الگ کرکے جمع کرنے کی عادت نہیں ہوتی۔ وہ اجتماعی زندگی گزارتے ہیں۔ دیمک کی کالونیوں میں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ دو گھروں میں لڑائی ہو اور بندوقیں نکل آئیں دو چار قتل ہوں دس پندرہ زخمی ہوں۔۔ نہ ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی دکان پہ سیل لگی ہو اور مادہ دیمک چھوٹے سے دروازے سے سینکڑوں کی تعداد میں دکان میں گھسنے کی کوشش کریں۔ بھگدڑ مچے اور کئی زخمی ہوجائیں۔ نہ کسی کے بچے اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنائے جاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دیمک کی کالونیوں میں قتل بھی نہیں ہوتے۔

دیمکوں کی ملکہ انڈے دیتی ہے جس سے بچے نکلتے ہیں اور ان بچوں کی حفاظت پولیس اور مزدور کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں مزدور بچے پیدا کرکے پالتے ہیں جبکہ ملکہ اور بادشاہ کی حفاظت کرتے ہیں۔ مزدور دیمک اور ہمارے مزدوروں میں فرق یہ بھی ہے کہ دیمک کے مزدور بلا تفریق سب کو ایک جیسی غذا مہیا کرتے ہیں جبکہ ہمارے مزدور دوسروں کو ملاوٹ شدہ غذا فراہم کرتے ہیں۔ مزدور دیمک باہر سے غذا لا کر بغیر ملاوٹ کے تمام کارکنان میں برابر تقسیم کرتی جاتی ہے۔

دیمک کے سپاہیوں کے سر بڑے ہوتے ہیں جبکہ ہمارے سپاہیوں کے پیٹ بڑے ہوتے ہیں۔ لیکن دونوں بادشاہ کے غلام ہی رہتے ہیں۔دیمک کے سپاہی اپنی کالونیوں میں دوسرے کیڑوں کو نہیں گھسنے دیتے ایسے ہی جیسے ہمارے سپاہی سرکاری دفاتر میں عام سائل کو گھسنے نہیں دیتے۔۔۔ دونوں سپاہیوں میں ایک مہان فرق یہ ہے کہ دیمک کے سپاہی کالونی میں گھسنے والے کیڑے کو مار ڈالتے ہیں۔ جبکہ ہمارے سپاہی رشوت لے کر دفتر میں جانے دیتے ہیں۔ ایک چیز جو دونوں کالونیوں میں مماثلت رکھتی ہے وہ یہ کہ جب کوئی حملہ کرتا ہے تو دونوں کالونیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔ سیلاب میں بہہ جاتی ہیں۔ تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لیکن دیمک کی کالونی کو تباہ کرنے والے ہم انسان بھی ہوسکتے ہیں لیکن ہماری کالونیوں کو تباہ کرنے والے بھی ہم انسان ہی ہوتے ہیں۔

پھر ہم اشرف المخلوقات کیسے ہوئے؟
اگر ہماری کالونیاں دیمک کی کالونیوں جیسی ہی ہونی ہیں یا ان سے بھی بدتر ہونی ہیں تو پھر انسانیت ہم میں نہیں دیمک میں ہوسکتی ہے۔
کیوں نہ ہم بھی اپنی دیمک زدہ بستی کو انسانوں کی بستی کی طرح بنالیں.

@I_G68

Leave a reply