کشف الاسرار تحریر کاشف علی

0
37

1400 سو سال پہلے آج ہی کے دن یعنی 12 ربیع الاول کو12 ربیع الاول سن 11 ھجری سوموار کا دن اور زوال سے پہلے کا وقت ہے۔ سورج کی زرد کرنیں زمین سے ٹکرا رہی ہیں ۔نبی کریم رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کیساتھ ٹیک لگائے ہوئے ہیں۔ پانی کا پیالہ پاس رکھا ہوا ہے۔ اس میں ہاتھ ڈالتے اور چہرہ انور پر پھرا لیتے ہیں۔ روئے اقدس کبھی سرخ اور کبھی زرد پڑ جاتا ہے۔ زبان مبارک آہستہ آہستہ حرکت میں ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور موت تکلیف کیساتھ ہے۔ یہ الفاظ ورد زبان ہیں۔حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنھما ایک تازہ مسواک لیے سامنے آتے ہیں۔آپ کی نظر مسواک پر جم جاتی ہے۔ ادھر اماں عائشہؓ سمجھ جاتی ہیں کہ آپﷺ مسواک فرمانا چاہتے ہیں۔ ام المؤمنین نے مسواک اپنے دانتوں میں نرم کرکے پیش کی اور آپﷺ نے بالکل تندرستوں کی طرح مسواک استعمال کی اور ہھاتھ اونچا فرمایا گویا کہ کہیں تشریف لے جا رہے ہیں اور زبان اقدس سے فرمایا۔ بل الرفیق الاعلی۔اب کوئی اور نہیں صرف اسی کی رفاقت منظور ہے۔ بل الرفیق الاعلی ، بل الرفیق الاعلی۔ تیسری آواز پر ہاتھ نیچے کو لٹک آئے ،آنکھ کی پتلی اوپر کو اٹھ گئیاور روح مبارک عالم قدس کو ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئی۔اللھم صل علی محمد و علٰی آل محمد و بارک وسلم۔ عمر مبارک قمری حساب سے63 سال4 دن ہے ۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس غم ہائے بیکراں اور حادثہ دلفگار (دل کو چیر دینے والا حادثہ) کی خبر فوراً مدینہ میں پھیل گئی تب عمرؓ کھڑے ہوے تلوار نکالی اور کہا جس نے کہا رسول اللہؐ فوت ہوگئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا یہ عالم جذبات تھا عمرؓ شدت جذبات سے تقریر کر رہے تبھی ابوبکرؓ آئے نبیؐ کا دیدار کیا چہرہ اقدس سے کپڑا اٹھا کر پیشانی مبارک پر بوسہ دیا پھر چادر واپس ڈال دی اور روتے ہوئے فرمایا، حضورﷺ پر میرے ماں باپ قربان آپﷺ کی زندگی بھی پاک تھی اور آپﷺ کی موت بھی پاک ہے، واللہ اب آپﷺ پردوموتیں وارد نہیں ہوں گی، اللہ نے جو موت لکھ رکھی تھی۔ آج آپﷺ نے اسکا ذائقہ چکھ لیا ہے اور اب اسکے بعد ابد تک موت آپﷺ کا دامن نہیں چھو سکے گی۔. اور باہر تشریف کائے اور عمرؓ جوش میں تقریر کر رہے تھے کہ خبردار نبیؐ فوت نہیں ہوے بلکہ حضرت موسیٰؑ کی طرح 40 دن کے لیے گئے ہیں وغیرہ اس دوران ابو بکرؓ نے عمرؓ سے فرمایا عمر رکو میری بات سنو مگر عمرؓ جوش سے تقریر کر رہے تھے تب ابوبکر ؓ نے لوگوں اپنی طرف بلایا لوگ عمرؓ کو چھوڑ کر ابوبکرؓ کی طرف آئے حمد و ثناء کے بعد فرمایا جو جو محمدؐ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے( ان محمد قد مات )تحقیق بے شک محمدؐ وفات پاچکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ اللہ حی القیوم ہے اور یہ آیات پڑھیں
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِ الرُّسُلُ‌ؕ اَفَا۟ٮِٕنْ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انْقَلَبۡتُمۡ عَلٰٓى اَعۡقَابِكُمۡ‌ؕ وَمَنۡ يَّنۡقَلِبۡ عَلٰى عَقِبَيۡهِ فَلَنۡ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَيۡـــًٔا‌ ؕ وَسَيَجۡزِى اللّٰهُ الشّٰكِرِيۡنَ
ترجمہ:

اور محمد (خدا نہیں ہیں) صرف رسول ہیں ‘ ان سے پہلے اور رسول گزر چکے ہیں اگر وہ فوت ہوجائیں یا شہید ہوجائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے تو جو اپنی ایڑیوں پر پھرجائے گا سو وہ اللہ کا کچھ نقصان نہی کرے گا اور عنقریب اللہ کا شکر کرنے والوں کو جزا دے گا

یہ آیت سن کر صحابہ کو لگا کہ جیسے یہ آیت آج ہی اتری ہے تب یہی12 ربیع الاول کا دن تھا عمرؓ فرماتے ہیں کہ ابوبکرؓ سے یہ آیت سن کر میرے پاؤں ٹوٹ گئے اور کھڑے رہنے کی قوت باقی نہیں رہی تھی، میں زمین پر گر پڑا اور مجھ کو یقین ہوگیا کہ واقعی محمدؐ رحلت فرما گئے ہیں۔صحابہ کلیجہ تھام تھام کر رو رہے کچھ سمجھ نہیں جو بیٹھے تھے شدت غم سے کھڑا نا ہوا جارہاتھاکئی صحابہ حیران وسرگردان ہو کر آبادیوں سے نکل گئے۔ کوئی جنگل کی طرف بھاگ گیا۔ جو بیٹھا تھا بیٹھا رہ گیا، جو کھڑا تھا اس کو بیٹھ جانے کا یارانہ ہوا۔ مسجد نبوی قیامت سے پہلے قیامت کا نمونہ پیش کر رہی تھی . مدینہ فضا سوگوار تھی صحابہ زارو زار آنسو بہا رہے دنیا سے بہت بڑی رحمت رخصت ہو چکی تھی انکے محبوبؐ ان سے جدا ہو چکے شدت غم سے کلیجے پھٹے جارہے تھے یقینًا 12 ربیع الاول کا دن تھا آنکھوں سے آنسووں کی لڑیاں ذباں سے درود سلام یقینًا یہ صدمہ اولاد اور مال و جان سے بڑھ کر تھا کیوں کہ وہ حقیقی طور نبیؐ سے اپنی مال و جان اولاد سے بڑھ کر محبت رکھتے تھے بھلا کسی کا ایسا رحیم نبی اور ایساکریم سردار ہوسکتا ہے
فضاء اداس اور ملول ہے دنیا کی تاریخ کا سب بہترین اور رحمت بھرا دور اختتام پذیر ہو رہا تھا آج کا سورج افسردہ تھا 12 ربیع الاول مدینے کی یہ شام غمگین اور افسردہ تھی آنسووں سے فضاء نمناک تھی اگرچہ انسانوں اور فرشتوں کے جھنڈ کے جھنڈ آرہے تھے مگر اتنے رش کے باوجود مدینہ ویران ویران لگ رہاتھا جس کے سبب اس عالم پر اک خصوصی رحمت تھی آہ! کہ آج اسی وجود سرمدی سے ہماری دنیا خالی ہے۔
اس سوگوار اور نمناک فضاء میں اک دلدوز غم سے بھری آنسووں سے لبریز صدا بلند ہوتی تھی ۔آہ! وہ کون ہے جو جبرائیل امیں کو اس حادثۂ غم کی اطلاع کر دے۔الٰہی! فاطمہؓ کی روح کو محمدؐ کی روح کے پاس پہنچا دے۔ الٰہی! مجھے دیدار رسول کی مسرت عطا فرما دے۔
حضرت فاطمہؓ کی آنکھ سے آنسو نا رکتے تھے آج فاطمہؓ کے بابا ان سے بچھڑ گئے تھے کیا فاطمہؓ کے بابا جیسا کوئی بابا ہوسکتا ہے وہ جو پتھر کھا کر دعا کرے وہ جو دو جہانوں کے لیے رحمت تھا آج کا12 ربیع الاول کا دن تھا فاطمہؓ کا پیارا بابا ان سے جدا ہوگیا تھا
حضرت عائشہؓ اور تمام ازواج مطہرات شدت غم سے نڈھال ہیں بھلا ایسا محبوب وعظیم شوہر دنیا میں جس کی مثال نہیں آج عائشہؓ کے سر کے تاج رخصت ہوچکے ہیں سرکار دو عالمؐ رحمةللعالمین رخصت ہوے
بلالؓ ہائے بلالؓ پر غم کے پہاڑ ٹوٹ گئے ان کے آقاؓ ان سے بچھڑ گئے ہیں بلالؓ شدت غم سے نڈھال ہیں صدمہ اسقدر زیادہ ہے کہ بلالؓ نے اس کے بعد ازان نہیں کہی اور گلیوں میں لوگوں سے کہتے تھے لوگو تم نے رسول اللہؐ کو دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھا دو حتیٰ کہ مدینہ چھوڑ دیاکافی عرصہ بعد واپس آئے تو سیدنا حسنین کریمین سے سفارش کروائی گئی جب آپ نے آزان دی جب آپ رضی اللہ عنہ نے (بآوازِ بلند) اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہا، مدینہ منورہ گونج اٹھا (آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے جذبات میں اضافہ ہوتا چلا گیا)، جب أشهد أن لا إلٰه إلا اﷲ کے کلمات ادا کئے گونج میں مزید اضافہ ہو گیا، جب أشهد أنّ محمداً رسول اﷲ کے کے کلمات پر پہنچے تو تمام لوگ حتی کہ پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں (رقت و گریہ زاری کا عجیب منظر تھا) لوگوں نے کہا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مدینہ منورہ میں اس دن سے زیادہ رونے والے مرد و زن نہیں دیکھے گئے۔

علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ اذانِ بلال رضی اللہ عنہ کو ترانۂ عشق قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اُس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
12 ربیع الاول کے دن اس ذمین کا سب بہترین وقت اختتام پذیر کیونکہ نبیؐ نے فرمایا
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سب میں بہترین زمانہ میرا ہے۔ پھر جو ان سے نزدیک ہیں، پھر جو ان سے نزدیک ہیں پھر جو ان سے نزدیک ہیں۔ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ٹھیک سے نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانہ کے بعد دو کا ذکر فرمایا یا تین کا ذکر فرمایا۔ پھر ان کے بعد وہ لوگ پیدا ہوں گے جو گواہی کے مطالبہ کے بغیر گواہی دیں گے، خائن ہوں گے اور امانتداری نہ کریں گے، نذر مانیں گے لیکن پوری نہ کریں گے اور ان میں موٹاپا پھیل جائے گا۔

Leave a reply