خالصتان بن کر رہے گا، تحریر: نوید شیخ

0
38

خالصتان بن کر رہے گا، تحریر: نوید شیخ

بھارت کی مصیبتوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اس کی سب سےبڑی وجہ مودی ہے ۔ بی جے پی کے کرتوں ہیں ۔ ان کے اقلیتوں کے خلاف اقدامات ہیں ۔ سکھوں اور خالصتان پر میں نے بہت سے وی لاگز کیے ہیں مگر آج وہ دن آ گیا ہے کہ اب سکھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ مزید بھارت کے ساتھ نہیں رہا جاسکتا ۔ اس سلسلے میں سکھوں کے علیحدہ وطن خالصتان کے قیام کیلئے لندن میں ریفرنڈم پر ووٹنگ ہوئی۔ مزے کی بات ہے کہ یہ ووٹنگ سرکاری عمارت کوئن ایلزبتھ دوئم میں ہوئی ۔ سرکاری عمارت کوئین ایلزبیتھ 2پر خالصتان کے جھنڈے بھی لگائے گئے ۔ اب لندن کے بعد برطانیہ کے دیگرشہروں میں بھی ووٹنگ ہوگی ۔

سکھ رہنماؤں کا کہنا ہےکہ بھارتی دباؤ کے باوجود برطانوی حکومت نے ریفرنڈم کی اجازت دی جس پر ان کے شکر گزار ہیں۔ سکھ رہنما پرم جیت سنگھ کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم کی نگرانی غیر جانبدار کمیشن کر رہا ہے جبکہ سکھ رہنما پتوت سنگھ نے الزام عائد کیا کہ بھارتی حکومت نے ریفرنڈم سے روکنے کیلئے مجھ پر جعلی مقدمات بنوائے۔ پھر سردار اوتار سنگھ کا کہنا ہے کہ بھارت نے پنجاب پر قبضہ کر رکھا ہے اب سکھ اب اپنا آزاد وطن خالصتان بنا کر دم لیں گے۔۔ 50 ہزار سے زائد سکھوں نے اس ریفرنڈم میں حصہ لیا ہے ۔ یاد رکھیں یہ صرف لندن میں ہوئے ہیں ۔ برطانیہ کے باقی شہروں میں ابھی یہ ہونے ہیں ۔ تو ایک شہر کے حوالے سے اچھی خاصی تعداد ہے ۔ جس کے بعد اجیت ڈول اور مودی دونوں کے لیے یقیناً ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔ آپ دیکھیں سکھوں کی آزادی کے سلسلے میں کینیڈا کی حکومت نرم رویہ رکھتی ہے۔ کینیڈا میں حالیہ منعقد ہونے والے عام انتخابات میں جہاں justin treudu کو کامیابی نصیب ہوئی وہاں اس دفعہ سکھوں کی کافی تعداد کینیڈا کی قومی اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئی ہے۔ justin treudu کو اپنی حکومت بنانے کے لیے سکھوں سے مدد بھی لینا پڑی۔۔ ویسے justin treudu تو پہلے ہی سکھوں کے حق میں ہیں جس سے بھارتی حکومت ان سے سخت ناراض ہے مگر وہ بھارت کی پرواہ نہیں کرتے۔

۔ بھارت کے بعد برطانیہ ، کینڈا اور امریکہ میں سکھوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے اور یہ زیادہ تر وہ لوگ ہیں جب آپریشن بلیو سٹار ہوا تھا تو یہ سکھ بھارت کو خیر آباد کہہ کر ان ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے ۔ پر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اپنی خالصتان تحریک کو مضبوط بھی کرتے آئے ہیں اور اس کے لیے مسلسل کام بھی کرتے رہے ہیں ۔ چند روز پہلے خالصتان تحریک نے اپنا نقشہ بھی جاری کیا تھا ۔ اس کی بھی بھارت کو کافی مرچیں لگی تھیں ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ کسی بھی مغربی ملک میں ۔۔ را ۔۔۔ کی سب سے بڑی موجودگی کینیڈا میں ہی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بھارت کی سکھوں والی سٹیٹس نہ صرف پورے بھارت کے لئے غلہ پیدا کرتی ہیں بلکہ بھارتی فوج کیلئے سپاہیوں کی بھرتی کا سب سے بڑا مرکز بھی یہی اسٹیٹس ہیں۔۔ ان سٹیٹس کے ستر فیصد سے زائد نوجوان فوج کو جوائن کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس وقت سکھ انڈین آرمی کا پندرہ فیصد ہیں جبکہ مودی کا گجرات انڈین آرمی کو صرف دو فیصد جوان ہی دے پاتا ہے۔ یوں بھارت کی معیشت اور دفاع دونوں میں سکھ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا ۔۔۔ را ۔۔۔ کو خالصتان کے حوالے سے بہت زیادہ سرگرم رہنا پڑتا ہے۔ پھر سینتیس برس پہلے آج کے دن بھارت بھر میں سکھوں کی تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی ہوئی تھی ۔ 31 اکتوبر 1984 کو انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے دو سکھ محافظوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ کے ہاتھوں قتل ہو گئیں۔ اس قتل کے فوراً بعد دہلی میں سکھ قوم کے خلاف جنونی ہندوؤں نے ایک قیامت برپا کر دی اور صرف تین دن کے اندر چھ ہزار سے زیادہ سکھ خواتین اور بچوں کو زندہ جلا دیا۔ اس وقت کے مرکزی وزراء جگدیش ، ایچ کے ایل بھگت اور سجن کمار سمیت بہت سے حکومتی رہنماؤں نے بذاتِ خود سکھوں کی نسل کشی کے عمل میں حصہ لیا اور پورے بھارت میں سکھوں کی جان و مال اس قدر غیر محفوظ ہو گئیں کہ ’’خشونت سنگھ‘‘ اور جنرل ’’جگجیت سنگھ اروڑا‘‘ کی سطح کے سکھوں کو بھی اپنی جان بچانے کیلئے غیر ملکی سفارت خانے میں پناہ لینی پڑی مگر بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ان ہزاروں سکھ خواتین اور بچوں کے قتلِ عام کو جائز ٹھہراتے یہاں تک کہا کہ جب کسی بڑے درخت کو کاٹ کر گرایا جاتا ہے تو اس کی دھمک سے ارد گرد کی زمین میں کچھ تو ارتعاش پیدا ہوتا ہی ہے اور درخت کی زد میں آنے والی گھاس پھوس ختم ہو جاتی ہے۔ دنیا بھر میں رہنے والے سکھوں نے اس بھارتی بربریت کو فراموش نہیں کیا اور امریکہ میں قائم سکھ حقوق کی تنظیم ’’Sikhs For Justice‘‘ نے 31 اکتوبر 2013 کو مسز گاندھی کے قتل کی برسی کے موقع پر دس لاکھ سکھوں کے دستخطوں پر مبنی رٹ پٹیشن اقوامِ متحدہ کے ادارے UNHRC میں داخل کرائی جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کے ہاتھوں ہونے والے سکھوں کے قتلِ عام کو عالمی سطح پر سکھوں کی نسل کشی ڈکلیئر کیا جائے۔

۔ دیکھا جائے تو سکھ کسانوں کے خلاف جو مودی نے محاذ گرم کیا ہوا ہے وہ بھی اس بات کی کڑی ہے کہ مودی چاہتا ہے کہ کسی طرح سکھوں کو کمزور کیا جائے ۔ تاکہ یہ خالصتان کا نام نہ لیں سکیں ۔ مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے یہ تو ہو کر رہنا ہے ۔ کیونکہ جو ظلم اندرا گاندھی اور اسکے بعد آنے والوں نے سکھوں پر روا رکھا ہے ۔ اس کا کفراہ تو ادا کرنا ہی پڑے گا ۔۔ پھر جو پاکستان نے کرکٹ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارت کو پچھاڑا ہے اس کے بعد بھارت میں اس ہار کا بدلہ کشمیریوں اور باقی مسلمانوں سے تو لیا جا رہا ہے۔ ۔ پر بھارت کے لیے اصل درد سر سکھ بھی بنے ہوئے ہیں ۔ کیونکہ پاکستان کی اس فتح پر اس دفعہ بھارتی سکھوں نے بھی شاندار جشن منایا ہے۔ سکھ اب کھلے عام پاکستان کی تعریفیں کرتے نظر آتے ہیں ۔ وہ دراصل بھارتی حکومت کی سکھ کش پالیسیوں سے بیزار ہیں۔ سکھ کسان اپنے جائز مطالبات منوانے کے لیے ایک سال سے مسلسل دلی کے اردگرد مظاہرے کر رہے ہیں مگر مودی حکومت ان کے مطالبات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ مظاہرہ کرنے والے کئی سکھوں کو قتل کردیا گیا ہے۔۔ بی جے پی کے ایک رہنما کے بیٹے نے جان بوجھ کر کئی مظاہرین کو اپنی گاڑی سے کچل دیا تھا اس واقعے کو اب ایک ماہ ہو رہا ہے مگر اب تک قاتل کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی ۔ سکھ دراصل آزادی کے بعد سے ہی بھارت کے خلاف چلے آ رہے ہیں جس کی وجہ ان کے ساتھ نا انصافی اور حق تلفی کا ہونا ہے۔ آزادی سے قبل گاندھی اور نہرو نے واضح طور پر ان کے لیے خالصتان کے نام سے ایک آزاد اور خود مختار ملک قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر بعد میں وہ اس سے مکرگئے اور اب خالصتان کا نام لینا بھی جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ تاہم سکھ اپنے آزاد وطن کے لیے ماضی میں بھی کوشش کرتے رہے ہیں اور آج بھی وہ اس سلسلے میں سرگرم ہیں۔

۔ آزاد خالصتان کا نعرہ بلند کرنے پر ہی بھنڈرا والا اور اس کے ساتھیوں کو امرت سر کے گولڈن ٹیمپل میں ٹینکوں سے حملہ کرکے ہلاک کردیا گیا تھا اور گولڈن ٹیمپل کے تقدس کو نقصان پہنچایا تھا۔ سکھ اس قتل عام کو نہیں بھولے ہیں۔ اب سکھوں نے بھارتی پنجاب ، ہماچل پردیش اور ہریانہ پر مشتمل اپنے آزاد وطن خالصتان کو قائم کرنے کے لیے پھر سے جدوجہد شروع کردی ہے۔ خالصتان کی تحریک اڑتیس سال سے جاری ہے۔ اور اب اس نے وہ رفتار پکڑ لی ہے جس کے بعد کامیابی ان کا مقدر ٹھہرے گی ۔ میں ایک بات جانتا ہوں کہ اگر خالصتان واقعی وجود میں آگیا تو کشمیر کا مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔ اس لیے پاکستان کو بطور ریاست سکھوں کی اخلاقی ، قانونی اور ہر طرح کی مدد کرنی چاہیئے ۔ اور اس سلسلے میں کسی بھی پریشر کا سامنا نہیں کرنا چاہیئے یہ وہ وقت جب پاکستان کو کشمیر کی طرح خالصتان پر بھی واضح موقف لینے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ سکھ ہمارے بھائی ہیں ۔ ہماری زبان بولتے ہیں ۔ ان کا کلچر اور ہمارا کلچر سب سے زیادہ قریب ہے ۔ یہاں تک ہمارے دریا اور ندیاں بھی ایک ہیں ۔

Leave a reply