@hidesidewithak
ہم کب تک 1992 کے ولڈ کپ کا قرض ُاتارتے رہیں گے؟
عمران خان افسوس کے ساتھ نہ اچھا لیڈر بن سکا اور نہ ہی اچھا دوست
کہتے ہیں انسان اپنی صحبت یعنی دوستوں اور تعلق داروں سے پچانا جاتا ہے،،، اسکی عادات و خصائل کے لیے اسکے احباب کا رویہ دیکھا جاتا ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنے دوست ہی باربار تبدیل کرے تو کیا کہا جائے،،، ہمارے موجودہ وزیراعظم جناب عزت ماب عمران احمد خان نیازی صاحب کا بھی کچھ ایسا ہی قصہ ہے،،، خان صاحب کی توتا چشمی کا ایک قصہ ان کے موجود دوست اور ساتھی کھاڑی وسیم اکرم نے بھی سنایا کہ کسی دوسرے ملک غالباً ویسٹ انڈیز کے خاف میچ کے دوران کھلاڑیوں سے توتکرار ہوئی،،، عمران خان نے دیکھا تو قریب آکر پیٹھ تھپتھپائی کہ سنا دو انکو میں ساتھ ہوں تمہارے،،، میچ میں وقفہ ہوا تو مخالف کھلاڑی لڑنے ڈریسنگ روم کے باہر آگیا،،، عمران خان کو بتایا تو صاف کنی بچا کر بولے تمہاری لڑائی ہے خود لڑو
وسیم اکرم نے یہ قصہ ہنسی مذاق میں سنا دیا لیکن خان صاحب نے بہت سے دوستوں کو اس موقع پرستی کا نشانہ بنایا اور وہ سب عمران خان کو اس حرکت پر کوستے ہیں،،، سیاستدانوں ہوں یا کھاڑی،،، صحافی ہوں یا صنعت کار، سب ہی خان صاحب کے اس رویے کا شکار ہو چکے،،، ان میں چند ایک کا ذکر یہاں ہوجائے،،، سب سے پہے ذکر پی ٹی آئی کے بانی اراکین میں سے ایک ا کبر ایس بابرکا،،، اکبر ایس بابر تحریک انصاف کے ساتھ قیام کے وقت سے منسک ہیں،،، انہوں نے عمران خان کے خوابوں پر لبیک کہا اور ہر گرم سرد میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے،،، 2011 تک مختلف پارٹی عہدوں پر فائز رہنے کے بعد انہوں نے عران خان کو خط لکھ کر پارٹی کے مالی معاملات میں شفافیت کا مطابہ کیا تو انہیں نظر انداز کردیا گیا،،، اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں دائر کردہ پارٹی فنڈنگ کیس ہی تحریک انصاف پر لٹکتی توار بنا ہوا ہے،،، اس کیس کے ممکنہ فیصلوں میں تحریک انصاف کی بطور جماعت رجسٹریشن منسوخی بھی شامل ہے جو حکومت خاتمے کا باعث بن سکتی ہے
اس فہرست میں جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین بھی شامل ہیں،،،وجیہہ الدین صاحب نے تحریک انصاف میں مختلف عہدوں پر ذمہ داریاں سرانجام دیں اور چیف الیکشن کمشنر بھی رہے،،، پارٹی الیکشن میں دھاندلی بارے آواز اٹھائی تو نکال باہر کیا گیا،،، سینئر وکیل اور سپریم کورٹ و پاکستان بار کونسل میں مختلف عہدوں پر فائز رہنے والے حامد خان کا قصہ بھی مختلف نہیں،،، عمران خان کی جانب سے پانامہ کیس میں پیش ہوتے رہے لیکن کچھ معاملات پر آواز اٹھائی تو پہلے سائیڈ لائن کیا گیا اور پھر شوکاز نوٹس دے کر مکمل کھڈے لائن لگا دیا گیا
خان صاحب کے ستم کا نشانہ بننے والے صحافیوں کی بات کریں تو سمیع ابراھیم کا ذکر ضروری ہے،،، سمیع ابراھیم کی جانب سے گزشتہ دور حکومت میں عمران خان کی کھل کر حمایت کی جاتی رہی،،، انہوں نے مختلف امور پر عمران خان کا کھل کر ساتھ دیا لیکن پھر تحریک انصاف کے دور حکومت میں تحریک انصاف ہی کے وزیر فواد چودھری نے انہیں سرعام تھپڑ جڑے اور وزیراعظم کی جانب سے زبانی ہدایات کے علاوہ کوئی کارروائی عمل میں نہ آئی سمیع ابراھیم اس بے عزتی پر آج بھی شکوہ کناں ہیں،،، کالم نگار ہارون الرشید کا ذکر بھی یہاں کیوں نہ ہو کہ انکی جانب سے خان صاحب کے حق میں بار بار کالم آتے رہے اور خان صاحب کو مختلف روحانی خوش خبریاں بھی سنائی جاتی رہیں،،، پارٹی اقتدار میں آئی تو ہارون صاحب کی جگہ بھی خان صاحب کے قریبی حلقے میں نہ رہی
صنعکاروں میں خان صاحب کے ستم کنندہ جمانگیر ترین ہیں،،،ترین صاحب نے عمران خان اور تحریک انصاف کی مالی آبیاری میں کوئی کسر نہ چھوڑی،،، خان صاحب کے نجی دوروں کے لیے انکا جہاز نیو خان کی بس کی مانند ہر چھوٹے بڑے شہر کی اڑانیں بھرتا رہا،،، کچھ منچلوں نے خان صاحب کے کچھ چلانے کا سہرا بھی ترین صاحب کے سر باندھا،،، ترین صاحب کو پہلا جھٹکا تاحیات نااہلی کا لگا،،، واقفان حال کے مطابق اس نااہلی سے پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا ایک مضبوط ترین امیدوار کم ہوا توخان صاحب نے بھی سکون کا سانس لیا،،،ترین صاحب نے پارٹی کا ساتھ تب بھی نہ چھوڑا اور تحریک انصاف کی وفاق اور صوبے میں حکومت کی تشکیل کے لیے آزاد اراکین کو ذاتی جہاز میں بنی گالا پہنچایا،،، صدارتی الیکشن میں بھی انکا ہی ڈنکا بجتا رہا،،، ترین صاحب چینی اسکینڈل آنے کے بعد سے عمرانی عتاب کا شکار ہوگئے،،، مزے کی بات کہ اسی اسکینڈل کے دوسرے کردار ابھی بھی وفاقی اور صوبائی کابینہ کا حصہ ہیں،،، اس فہرست میں علیم خان بھی موجود ہیں کہ وزارت اعلیٰ نہ ملنے پر انہوں نے صبر کیا تو سینئر صوبائی وزیر بن کر بھی چین نہ پایا،،، نیب اور جیل یاترا کے بعد واپس آئے تو سینئر کے ٹیک کے ساتھ ایسی بے اختیار وزارت ملی کہ اب وہ انشا جی کی بات ماننے کو ہیں
انشاجی اٹھو اب کوچ کرو اس حکومت میں جی کا لگانا کیا