خدمت خلق اور ہمارا کردار
خدمت خلق ایک جامع لفظ ہے ،یہ لفظ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے،خدمت خلق کے معنی مخلوق کے کام آنا ہے ،لیکن اسلام میں اس سے مراد اللہ تعالٰی کی رضا و خوش نودی کے لیے بلا کسی اُجرت اور صلے کے خلق خدا کے کام آنا اور امانت پر کمر بستہ رہنا ہے-
دنیا کے ہر مذہب نے انسانیت کی بلا امتیاز خدمت کی تلقین کی ہے۔ ضروت مند کی حاجت روائی ہر مذہب کی بنیادی تعلیم ہے۔لیکن خدمت انسانیت یہ اسلام کا طرئہ امتیاز اور مسلمانوں کا بنیادی وصف ہے۔ یہی ہماری شان اور ہمارا شعار ہے اور یہ امت خدمت انسانیت کے لیے ہی برپا کی گئی ہےاور اسلام کی حقوق العباد کی تعلیمات معاشرتی ذمےداریوں اور انسانی فلاح وبہبود کی مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں-
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہدیٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
وہی دوست ہے خالقِ دوسرا کا
خلائق سے ہے جس کو رشتہ ولا کا
کہا جاتا ہے کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے وہ معاشرے میں رہنے پر مجبور ہے اسے قدم قدم پر دوسروں کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے،مال و دولت کی وسعتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ایک دوسرے کے احتیاج کو دور کرنے کے لئے آپسی تعاون، ہمدردی، خیر خواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت کا جزء لا ینفک ہے اورانسان وہی ہے جو دوسروں کا خیر خواہ اور ہمددر ہو-
جس معاشرہ میں کمزوروں کو سہارا دینے، گرتے کو تھامنے اور زندگی کی تلخ گھڑیوں میں افراد معاشرہ کے حوصلے بڑھانے کا رواج اور چلن ہو۔ وہ سماج کے کمزور طبقات کی خدمت و تعاون کو مختلف اندازاور حکیمانہ اسلوب میں پیش کرتا ہے-
اورایک دوسرے کے کام آنا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کا آغاز ہے۔ اور بلاتفریق ایک دوسرے کی مدد کرنا تمام معاشروں کا خاصہ ہے-
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
اسلام صرف چند عبادات کے مجموعہ کانام نہیں بلکہ زندگی گزارنے کے ہر پہلو کے بارے میں واضع ہدایات دیتا ہے ۔ ہم نے اسلام کی تعلیمات کو چھوڑ دیا ۔ خاص کر حقوق العباد کو تو ہم عبادت ہی خیال نہیں کرتے ۔اسی وجہ سے ہم میں اتحاد و اتفاق نہیں رہا .یکجہتی اور بھائی چارہ نہیں رہا،اخوت ،محبت، رواداری،اور ایک دوسرے کا احساس نہیں رہا۔ہم اتنے خود غرض ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی ذات کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا ۔ یہ جو دنیا میں انسانیت سسک رہی ہے-
آج ضرورت ہے کہ ہم انسانیت کی فکر کریں، ہماری پہچان انسانیت کے بہی خواہ و خیر نواہ کی حیثیت سے ہو، ہمارے اندر خدمات انسانیت کی ایسی ترپ موجود ہو کہ سماج کا وہ فرد ہمیں اپنا مونس و غمخوار سمجھے، اگرہم نے انسانیت کی فکر چھوڑ دی تو ہم خیر امت کہلانے کے مستحق ہر گز نہیں ہوسکتے-
خود رسالت مآب ﷺ کی پوری زندگی خدمت خلق کا اعلیٰ نمونہ تھی، نبوت سے قبل آپ ﷺ سماج اور معاشرہ میں خدمت خلق ، محتاجوں ومسکینوں کی دادرسی، یتیموں سے ہمدردی، پریشاں حالوں کی مدد اور دیگر بہت سارے رفاہی کاموں کے حوالے سے معروف تھے، اور نبوت سے سرفرز کئے جانے کے بعد تو پوری انسانیت اور تمام نوع انسانی جسطرح آپ کے احسانات کے زیر بار ہے اس کو شمار ہی نہیں کیا جاسکتا اور رسول اقدس ﷺ نے اپنی ساری زندگی انسانیت کے لیے وقف کی تھی، آپ کی بعثت مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کے لیے ہوئی تھی، یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی بے لوث محبتِ انسانیت، رحم و کرم، عفو و درگزر اور انسانوں کے دنیاوی واخروی نجات کے لیے انتھک جدوجہد اور مساعی پر مشتمل تھی۔اس بنیاد پر ہر مسلمان اور خاص طور پر وارثینِ نبوت کا یہ فرض ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کا نصب العین انسان اور انسانیت کی خدمت کو بنائیں-
قارئين کرام! خدمتِ مخلوقِ خدا کی ذریعہ دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے۔ایک بہترین مسلمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ ایسے کام کریں جو دوسرے انسانوں کیلئے مفید اور نفع بخش ہوں۔ اس نیکی کے ذریعے صرف لوگوں میں عزت واحترام ہی نہیں پاتابلکہ اللہ تبارک تعالیٰ کے ہاں بھی اہم رتبہ حاصل کرلیتا ہے۔ پس شفقت و محبت، رحم و کرم، خوش اخلاقی، غم خواری و غم گساری خیرو بھلائی، ہمدردی، عفو و درگزر، حسن سلوک، امداد و اعانت اور خدمت خلق ایک بہترین انسان کی وہ عظیم صفات ہیں کہ جن کی بدولت وہ دین و دنیا اور آخرت میں کامیاب اور سرخرو ہو سکتا ہے۔
اس لیے ہمیں اللہ نے جن نعمتوں سے نوازا ہے، ہمیں چاہیے ہم ان نعمتوں میں سے اللہ کی مخلوق کےلئے کچھ حصہ ضرور نکالیں، ڈاکٹر غریب مریضوں کا مفت یا کم فیس میں علاج کریں، استاد غریب بچوں کو مفت یا کم فیس میں تعلیم دیں،اگر آپ کا تعلق پولیس،عدالت یا سیاست سے ہے ، تو آپ اپنا کام ایمان داری سے کر کے خدمت خلق کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ، آپ کا تعلق کسی بھی شعبےسے ہو ،اپنے کام کی نوعیت اور استطاعت کے مطابق خدمت خلق میں خود کو مصروف رکھیں۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب اور
پسندیدہ وہ آدمی ہے جو اس کے کنبے (مخلوق) کے ساتھ نیکی کرے۔
لہذا ہمیں چاہیے اس فرقہ پرستی اوراخلاقی بحران کے اس دور میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سماج کے بااثر افراد ، تنظیمیں اور ادارے خدمت خلق کے میدان میں آگے آئیں اور مضبوطی کے ساتھ اپنے قدم جمائیں ،دنیا کو اپنے عمل سے اسلام سکھائیں، لوگ اسلام کو کتابوں کے بجائے ہمارے اخلاق و کردار سے ہی سمجھناچاہتے ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے کچھ ادارے بہتر کام کررہے ہیں ، لیکن مزید بہتری لانے کی شدید ضرورت ہے، اپنے نجی اسکولوں اور مدارس کے نصابوں میں اخلاقیات کو بنیادی اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ عملی مشق کرائیں، تاکہ نئی نسلوں میں بھی خدمت خلق کا جذبہ پروان چڑھے۔ہمیں یادرکھناچاہیے کہ خدمت خلق صرف دلوں کے فتح کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اسلام کی ترویج واشاعت کا موثر ہتھیار بھی ہے-
اللہ تعالی ہمیں اپنے مخلوق کی خدمت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین۔