گرفتار خواتین پر تشدد کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا جارہا ہے،آئی جی پنجاب

0
34

لاہور: انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب عثمان انور کا کہنا ہے کہ گرفتار خواتین پر تشدد کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا جارہا ہےعوام اپنے اداروں پر اعتماد بحال رکھیں-

باغی ٹی وی: آئی جی پنجاب عثمان انور نے دیگر پولیس حکام کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے تقاضے پورے کرکے
ہی گرفتاری کی جاتی ہے ہر شخص کی گرفتاری قانون کےمطابق ہوتی ہےلیگل طریقہ کار کو سمجھنا ضروری ہے ، کسی شخص کو گرفتار کیا جاتاہے ، پھر ریمانڈ لیا جاتا ہے یا پھر شناخت کیلئے جیل بھیج دیا جاتا ہے ، ریمانڈ کے بعد وہ شخص ڈسچارج ہوتاہے یا پھر جیل جاتاہے اور پھر جیل سے ضمانت پر رہا ہوتاہے ، یہ طریقہ کار پنجاب حکومت کے انڈر ہے تمام لیگل طریقہ کار کےدوران کیمرہ موجود ہیں، پولیس سٹیشن اور جیل کے اندر 150 سے زائد کیمرے موجود ہیں۔


آئی جی عثمان انورکا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر گرفتار خواتین سے متعلق جعلی خبریں لگائی گئیں، گرفتار خواتین پر تشدد کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا جارہا ہےعوام اپنے اداروں پر اعتماد بحال رکھیں، پٹرول بم بنا کر دینے والی خواتین ہیں، لوگوں کو موقع سے گرفتار کیا گیا ہےگرفتار لوگوں نے خود ہی اپنے ساتھیوں کا بتایا ہے، جس کے بعد سی سی ٹی وی کیمروں سے تصدیق کی گئی اور پھر گرفتاریاں کی گئیں مظاہرین نے خاتون ایس ایچ او پر تشدد کیا، توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کا مکمل ڈیٹا موجود ہے میرے اپنے دوست پولیس افسران کے بچے گرفتار ہوئے، ہم نے ان بچوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا ہے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آئی جی پنجاب کا کہناتھا کہ اوور سیز پاکستانیوں اور ڈاکٹروں سے کہنا چاہتاہوں کہ سوشل میڈیا پر یہ چلنے والی پوسٹ جس میں احتجاج کیا جارہاہے انہوں نے ایک تصویر دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک خاتون تھیں جو چیک سلواکیا سے آئیں تھیں ، کچھ سال پہلے وہ ہیروئن کے مقدمے میں گرفتار ہوئیں ۔

آئی پنجاب نے کہا کہ سوشل میڈیا انفلواینسرز سے کہوں گا کہ اگر آپ کوئی پوسٹ کرتے ہیں اور پھر اسے ڈیلیٹ کرتے ہیں تو پنجابی میں اسے تھوک کر چاٹنا کہتے ہیں سوشل میڈیا پر چلنے والی پوسٹیں پرانی اور جعلی ہیں۔یہ بھی ایک پوسٹ چل رہی ہے کہ پولیس ظلم کر رہی ہے ، یہ بھی 2021 کی پوسٹ ہے ، سوشل میڈیا پر خواتین پر تشدد کا جھوٹا پراپیگنڈہ کیا جارہاہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں پر لیڈی پولیس افسر کے علاوہ کسی نے خواتین سے تفتیش نہیں کی ،سیف سٹی کیمروں کے ذریعے شناخت کی گئی ،لوگوں نے فخر کے ساتھ آرمی تنصیبات پر حملے کر کے فیس بک اکاﺅنٹس پر تصاویر لگائیں انہیں بھی گرفتار کیا گیا اور نادرا سے شناخت کی گئی ، صحافیوں کے بھی نام آ رہے تھے –

آئی جی پنجاب نے کہا کہ جیوفینسنگ پر آنے والے نمبرز کو بھی ویریفائی کیا گیاواٹس ایپ گروپس میں ہدایات دی جاتی رہیں، جب وہ گرفتار ہوئے ، کچھ نے اپنے فونز توڑ دیئے ، ہمارے پاس فونز موجود ہیں، بیسیوں کی تعداد میں ہیں، ان واٹس ایپ گروپ میں نمبرز اور ہدایات موجود ہیں پوری سازش کی چین میڈیا کے سامنے رکھوں گا، آج کی پریس کانفرنس کا مقصد خواتین کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں پھیلائی جانے والی افواہوں پر گفتگو کرنا ہے ۔

آئی عثمان انور نے پریس کانفرنس میں کہا کہ آج انتہائی افسوسناک پوسٹ کی جارہی ہے کہ خواتین جو جیلوں سے نکل رہی ہیں ان کے جسم پر کٹس کے شانات تھےلعنت ہے ان لوگوں پر جو جھوٹ بولتے ہیں جیل میں لیڈی ڈاکٹرز موجود ہیں، 150 کیمرے لگے ہوئے ہیں، عورتوں کے کمرے الگ ہیں۔ کسی ایک عورت کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی تو ہم اس کے جوابدہ ہوں گے کب تک اپنے ٹویٹس ڈیلیٹ کرتے رہیں گے-

دوران پریس کانفرنس ایس ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر انوش مسعود کا کہنا تھا کہ پنجاب میں اس وقت 13 خواتین لاہور کی جیل میں قید ہیں، جبکہ دو پنڈی میں قید ہیں۔ جن میں طیبہ ، صنم ، مریم ، عالیہ ،صبوہی ، خدیجہ ، ہما، ارم، ممتاز ، عائشہ ، ماہم اور عفت شامل ہیں ۔ابھی یاسمین راشد جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، ڈاکٹر یاسمین راشد سے ملاقات کروائی جارہی ہے ، جن لوگوں کو شناخت پریڈ کیلئے بند کیا گیاہے-

ڈاکٹر انوش مسعود کا کہناتھا کہ یاسمین راشد کی ملاقات کروائی جارہی ہے سوشل میڈیا پرغلط خبریں چلائی جارہی ہیں،خواتین کو گھر سے کپڑے منگوا کر دیئے گئے ہیں،اس کی لسٹ بھی ان کے دستخط کے ساتھ موجود ہے، انہیں مکمل طبی اور دیگر سہولیات دی جارہی ہیں –

انہوں نے کہا کہ انہیں قانون ملاقات کی اجازت نہیں دیتا ،جہاں تک ان کی بات یہ ہے کہ ان کے ساتھ سلوک اچھا نہیں کیا جارہاہے ، تو میں ان سے جیل میں ملی ہوں ، سیکیورٹی سخت ہے ، جیل میں خواتین کے حصے میں آدمی داخل ہی نہیں ہو سکتا ہے ، اس کے دو گیٹس ہیں، ایک گیٹ سے گزر کر ایک اور گیٹ آتا ہے ، خدیجہ شاہ سے ملاقات کی ہے ، اسے دمے کا مسئلہ ہے ، اس کو ادویات دے دی گئیں، عفت کو سکن کا مسئلہ تھا ، انہیں ادویات دے دی گئیں ہیں، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور سائیکالوجسٹ موجود ہیں ۔

Leave a reply