لاکھوں روپے کھا لئے گئے اور یہ کام نہیں ہوا، چیف جسٹس ہوئے حکام پر برہم
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں سندھ میں صاف پانی کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ،چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں یبنچ نے سماعت کی،
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ نیب کی طرف سے کون ہے، پراسیکیوٹر جنرل کو بلائیں، وکیل نیب نے کہا کہ کیس کی سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کردیں پراسیکیوٹر جنرل آجائیں گے، چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں کیا مذاق کررہے ہیں،لاکھوں روپے کھا لیے گئے ایک بھی آر او پلانٹ نہیں لگا،سب پیسے کھا گئے ہڑپ کر گئے۔
عدالت نے کہا کہ نیب کی جانب سے آر او پلانٹس تنصیب میں کرپشن کی رپورٹ جمع کروائی گئی ہے،چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ کوئی کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں ہے، ایڈووکیٹ جنرل واٹرکمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد یقینی بنائیں.
چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمے میں 4 گواہان کی جگہ آپ 200 گواہ بنالیتے ہیں، ایک سال میں مقدمات کا فیصلہ ہونا چاہیے 6،6 سال گزر جاتے ہیں، ملک کی بہتری کےلئے جو کردار ادا کرنا تھا آپ اس میں رکاوٹ بن گئے ،
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کے ریفرنس دائر کرنے میں کتنا عرصہ لگتا ہے ؟ 6 سال ؟چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 2سال میں ریفرنس بناتے ہیں اور 10سال ملزم کو رگڑتے رہتے ہیں۔عدالت نے کہا کہ صاف پانی کی فراہمی سے متعلق موثر قانون سازی کےلئے اقدامات کیے جائیں، سفارشات پر عملدرآمد سے متعلق ہر ضلع سے سہ ماہی رپورٹ جمع کروائی جائے،
شیخ رشید نے عدالت سے مانگی مہلت،چیف جسٹس نے کہا لوگ آپکی باتیں سنتے ہیں لیکن ادارہ نااہل
اسد عمر حاضر ہو، شیخ رشید کے بعد سپریم کورٹ نے اسد عمر کو بھی طلب کر لیا
جب تک 50 لوگوں کو فارغ نہ کیا بہتری نہیں آئیگی، چیف جسٹس کے ریمارکس
سپریم کورٹ نے سندھ واٹر کمیشن اورواٹرکمیشن سیکرٹریٹ کو تحلیل کردیا۔عدالت نے کہا کہ سندھ واٹر کمیشن اپنا تمام تر ریکارڈ چیف سیکرٹری سندھ کے حوالے کرے، عدالت نے کراچی سندھ کول اتھارٹی کیس اورصاف پانی کیس کو یکجا کرنے کا حکم دیدیا،عدالت نے نیب کو مقدمات سے متعلق ریفرنس و دیگر معاملات ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیدیا،
سپریم کورٹ میں سندھ میں صاف پانی کی فراہمی سے متعلق کیس ایک ہفتے تک ملتوی کردی۔
بحریہ ٹاؤن نے سرکاری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے، حکومت کی آنکھیں کیوں بند ہیں؟ چیف جسٹس