مدھیہ پردیش میں ہندو انتہا پسندوں کا عیسائی سکول پر حملہ

نئی دہلی: بھارت میں ہندوانتہاپسندی عروج پرمدھیہ پردیش میں ہندوانتہاپسندوں نے عیسائی انتظامیہ کے زیرنگرانی چلنے والے اسکول پردھاوا بول دیا۔

باغی ٹی وی : بھارتی میڈیا کے مطابق مدھیہ پردیش میں عیسائی انتظامیہ کے تحت چلنے والے ایک اسکول پرہندوانتہاپسندوں نے دھاوا بول دیا۔ پتھراؤ کیا اسکول میں گھس کرتوڑپھوڑ کی اوراساتذہ اوردیگرعملے کودھمکیاں دیں –

کترینہ اور وکی کی شادی کی تقریبات کا آغاز آج سے شروع

ہندوانتہاپسندوں کے حملے کے وقت اسکول میں امتحانات ہورہے تھے۔ہندوانتہاپسندوں کے حملے سے خوفزدہ بچے ڈیسک کے نیچے چھپ گئے اوربمشکل جان بچائی۔

ہندوانتہاپسندوں نےزبردستی مذہب تبدیل کرانے کا الزام لگا کراسکول پرحملہ کیا تھا۔ بھارتی پولیس نے حسب روایت انتہاپسندوں کا ساتھ دیتے ہوئے کسی کوگرفتارنہیں کیا۔

دوسری جانب کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی ریاست ودیشا ضلع کے گنج باسودہ قصبے میں بجرنگ دل سے وابستہ ہندو انتہا پسندوں کے عیسائی مشنری اسکول پر حملے کے بعد مدھیہ پردیش میں حالات کشیدہ ہیں۔

روزانہ 500 گرام ریت کھانے والی 80 سالہ خاتون

بجرنگ دل کے کارکنان سینکڑوں مقامی لوگوں کے ساتھ اسکول میں گھس گئے اور عیسائی مشنری ادارے کی طرف سے طلباء کے مبینہ مذہب تبدیل کرنے کے خلاف عمارت پر پتھراؤ کیا۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب 12ویں جماعت کے طلباء ریاضی کے امتحان میں بیٹھے تھے۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق، ودیشا ضلع کے گنج بسودا قصبے میں سینٹ جوزف اسکول کو سوشل میڈیا پر الزامات کے بعد نشانہ بنایا گیا تھا کہ انتظامیہ کی طرف سے آٹھ طلباء کے مذہب کو تبدیل کیا گیا تھا۔

فرانس: معمر شخص کے گھر سے 100 بلیوں کی لاشیں، گلہریوں اور چوہوں کی باقیات برآمد

سوشل میڈیا پر وائرل تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عمارت کے باہر ایک بہت بڑا ہجوم اسکول انتظامیہ کے خلاف نعرے لگا رہا تھا۔ایک طالب علم نے کہا، "کہ حملے کی وجہ سے ہمارا پیپر ادھورا رہ گیا تھا، ہم چاہتے ہیں کہ امتحان دوبارہ ہو”۔

اسکول کے مینیجر برادر انٹونی نے کہا ہے کہ انہیں ایک روز قبل مقامی میڈیا کے ذریعے حملے کی اطلاع ملی تھی جس کے بعد انہوں نے پولیس اور ریاستی انتظامیہ کو الرٹ کر دیا تھا۔ انہوں نے پولیس پر مناسب حفاظتی انتظامات نہ کرنے کا الزام لگایا انہوں نے مذہب کی تبدیلی کے دعووں کی بھی تردید کی-

شہری کا گرل فرینڈ کو مہنگا تحفہ دینے کیلئے انوکھا اقدام

Comments are closed.