یوم ملالہ: گل مکئی کی کامیابی کے پیچھے چھپا اصل کردار

بارہ جولائی کو عالمی طور پر ملالہ ڈے منایا جاتا ہے، 12 جولائی، 2013ء کو ملالہ کی سولہویں سالگرہ تھی جب ملالہ نے حملہ کے بعد پہلی تقریر کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے عالمی خواندگی کے بارے خطاب کیا تھا۔ اقوام متحدہ نے اس واقعے کو ملالہ ڈے یعنی یومِ ملالہ قرار دے دیا تھا۔

  نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی آج پچیس سال کی ہوگئی ہے وہ 12 جولائی 1997 کو ماہر تعلیم اور سماجی کارکن ضیاء الدین یوسف زئی کے گھر سوات کے ایک چھوٹے سے گاؤں برکانہ میں پیدا ہوئی تھی۔

ملالہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد اور مقامی اسکول سے حاصل کی تاہم عالمی منظر نامے پر ان کا نام اس وقت آیا جب طالبان نے سوات میں خواتین کی تعلیم پر مکمل پابندی لگا دی تھی تاہم اس دوران یہ بچی اپنے والد کی مدد سے برطانوی نشریاتی ادارے کیلئے فرضی طور پر گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھتی رہی جس میں انہوں نے عالمی دنیا کو اس وقت کی موجودہ صورتحال سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ کیا۔

یوم ملالہ پر ضیاء الدین یوسف زئی نے ملالہ کی بچپن کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا: جنم دن مبارک ہو جان من، آپ ہماری زندگی میں ایک صبح کی ستارے کی مانند ہیں۔

اس پر ملالہ نے والد کو جواب میں لکھا: شکریہ ابا


ملالہ نے خود اپنی سلور جوبلی پر کہا: ملالہ فنڈ نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اقدامات کرنے کے 25 طریقوں کی ایک فہرست جمع کی ہے۔

 میں اپنی سالگرہ کے اعزاز میں آپ سب کی حمایت کے لئے بہت شکر گزار ہوں۔


ملالہ کے شوہر ملک عصر نے بھی انہیں اپنی زندگی کا خوب صورت شخصیت قرار دیتے ہوئے جنم دن کی مبارک دی۔


تیرہ سال کی عمر میں اسکول کھولنے مطالبہ
آج سے تقریبا تیرہ سال قبل معروف صحافی حامد میر کو ایک بچی جس کا نام ملالہ ہے سوات کے شہر مینگورہ میں ملی جس کی عمر اس وقت گیارہ سال تھی اور وہ اس وقت سوات کے اسکولوں کو کھولنے کا مطالبہ کررہی تھی کیونکہ ان دنوں سوات کے اکثر اسکولز پر طالبان کا قبضہ تھا.

حامد میربتاتے ہیں: ان دنوں ناصرف بچیوں کے اسکولوں کو بمبوں سے اڑایا جارہا تھا بلکہ بچیوں کے تمام اسکول بند ہوچکے تھے لہذا ملالہ نے کہا میرا اسکول کھولا جائے کیونکہ میں نے اسکول جانا ہے اور تعلیم حاصل کرنی ہے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ: میرے پروگرام کیپٹل ٹاک کی ریکارڈنگ کے دوران جب ملالہ اسکول کھولنے کی بات کررہی تھی تو اس دوران ان کے اردگرد مسلح افراد کھڑے ہوئے تھے۔ اور وہ یہ ساری باتیں سن رہے ہیں تھے۔

اس انٹرویو سے حامد میر کے ذریعے ملالہ کی آواز پورے پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیل گئی، بعدازاں اسکول بھی کھل گئے لیکن جب ملالہ 9 اکتوبر 2012 کو اسکول سے واپس آرہی تھی تو ان کی گاڑی جس میں باقی طالبات بھی موجود تھیں کو نامعلوم افراد نے روک کر پوچھا کہ ملالہ یوسفزئی کون ہے؟

 جب انہوں نے ملالہ کو شناخت کرلیا تو ان پر فورا گولیاں چلا دیں جس سے یہ بچی شدید زخمی ہوگئی اور اسکی دو ساتھی شازیہ اور کائنات بھی زخمی ہوئی تھی تاہم اس وقت کی سول حکومت اور فوج نے انہیں فوری علاج کیلئے بیرون ملک بھیج دیا تھا۔

واضح رہے کہ ملالہ پر حملہ کی مذمت کرنے پر حامد میر کی کار کے نیچے بمب رکھا گیا تھا۔ جس کی تصدیق اس وقت کے ٹی ٹی پی کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بھی کی تھی اور کہا تھا کہ حامد میر کو کئی بار روکا گیا کہ آپ ملالہ یوسفزئی کی حمایت نہ کریں لیکن وہ باز نہیں آئے لہذا انہیں سبق سکھانے کیلئے بمب رکھا گیا۔

ملالہ یوسفزئی نے برطانیہ میں علاج کے ساتھ ساتھ آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم بھی حاصل کی اور وہ حملہ کے بعد پاکستان بھی ایک بار آچکی ہیں۔ 

سال 2021 میں ملالہ نے ملک عصرسے شادی کرلی اور آکسفورڈ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اب وہ اپنے قائم کردہ ملالہ فنڈ کیلئے متحرک ہیں۔

ملالہ سے وابستہ غلط فہمیاں اور حقائق

ملالہ پر حملہ کے بعد 13 اکتوبر 2012 کو ڈاکٹر سمیعہ رحیل قاضی نے ایک ٹوئیٹ میں تصویر شیئر کرتے ہوئے الزام عائد کرتے ہوئے لکھا تھا: "ملالہ امریکی فوجی حکام کے ساتھ، علاوہ ازیں شیئر کی گئی پر لکھا ہوا ہے "ملالہ اپنے (ضیاء الدین یوسف زئی) والدہ (تورپکئی) کے ہمراہ امریکہ فوجی حکام کے ساتھ اجلاس میں”

جبکہ یہ الزام سراسر غلط عائد کیا گیا جس کی حقیقت یہ ہے کہ جولائی 2009 میں امریکا کی طرف سے افغانستان اور پاکستان کے لیے مقرر کردہ نمائندہ خصوصی رچرڈ ہال بروک، سیرینہ ہوٹل اسلام آباد میں وزیرستان اور سوات سے تعلق رکھنے والے آئی ڈی پیز سمیت کچھ سول سوسائٹی کے لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں جن میں ملالہ اور ان کے والد کو بھی امتیاز نامی (صحافی) دوست بلوا لیتا ہے کیونکہ وہ ان کے دفتر میں کام کرتا تھا۔

 یہ ملاقات کوئی چوری چھپے نہیں ہوئی تھی بلکہ اس میں بہت سارے لوگ موجود تھے۔ لیکن کچھ انتہاء پسندوں اور محب وطن نے اس ملاقات کی ایک تصویر نکالی اور جھوٹا پروپیگنڈہ پھیلاتے ہوئے ملاقات میں موجود سماجی خاتون شاد بیگم کو ملالہ کی والدہ یعنی تورپکئی قرار دے دیا اور رچرڈ ہال بروک کو سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دیتے ہوئے عام لوگوں میں یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ جیسے ملالہ خاندان پہلے سے سی آئی اے سے ملا ہوا تھا۔

 یہ وہ جھوٹ ہے جس کے نہ ہاتھ ہیں اور نہ ہی پاؤں۔ اس کی حقیقت جاننے کےلیے میٹنگ میں شریک شاد بیگم سمیت متعدد لوگوں سے میں نے بذاتِ خود رابطہ کرکے تصدیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ ملاقات بہت سارے لوگوں کی موجودگی میں ایک ساتھ ہوئی نہ کہ بطور خاص ملالہ سے، کیونکہ وہ تو انہیں ملاقات سے قبل جانتے تک نہیں تھے۔

 یاد رکھیے کہ رچرڈ ہال بروک وہ انسان تھے جنہوں نے بوسنیا کی جنگ کی روک تھام میں مسلمانوں کے لیے ایک مثالی کردار ادا کیا تھا۔ اگر یقین نہ آئے تو تاریخ کا مطالعہ کرلیجیے۔

ایک اور بےبنیاد پروپیگنڈہ یہ ہے کہ ملالہ یوسفزئی، تسلیمہ نسرین (ملعونہ) کی موجودگی میں سلمان رشدی (ملعون) سے ایوارڈ وصول کر رہی ہے جبکہ اس کی حقیقت بھی کچھ اور ہے۔ 

سخاروف ایوارڈ کے لیے ملالہ کو بلایا جاتا ہے جس میں تسلیمہ نسرین بھی موجود ہے۔ کیونکہ جس طرح ماضی کے انعام یافتہ لوگوں کو نوبیل امن ایوارڈ کی تقریب میں ہر سال بلایا جاتا ہے، اسی طرح انہیں بھی بلایا گیا تھا لیکن ملالہ اس سے قبل اس موصوفہ کو جانتی تک نہیں تھی اور نہ ہی اب کوئی ان سے تعلق یا واسطہ ہے۔

 ملالہ کے ساتھ اس تقریب میں کھڑا شخص سلمان رشدی نہیں بلکہ یورپین پارلیمنٹ کا صدر مارٹن شولز ہے جسے ایوارڈ دینے کےلیے بطور خاص بلایا گیا تھا۔

ملالہ کی کامیابی کے پیچھے چھپا اصل کردار
ملالہ یوسفزئی کی کامیابیوں کا اصل راز ان کا والد ضیاء الدین یوسف زئی اور انکی والدہ تور پکئی ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں ملالہ جیسی بچیاں تو ہزاروں ہیں لیکن ان کے پاس ضیاء الدین یوسف زئی جیسا باپ نہیں جو ان کے پر نہ کاٹے اور پرواز کرنے دے۔

Comments are closed.