پاکستان میں مبینہ طور پر ڈیڑھ لاکھ بے گھر بچے پائے جاتے ہیں

0
25

پاکستان کے اندر مبینہ طور پر ڈیڑھ لاکھ بےگھر بچے (سٹریٹ چلڈرن) پائے جاتے ہیں اور یونیسیف کے مطابق وہ کئی طرح کے استحصال، تشدد اور سمگلنگ کا نشانہ بنتے ہیں۔

انگریزی اخبار دی انڈیپنڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق: دریائے راوی کے کنارے ایک عارضی پناہ گاہ میں رہنے والی 13 سالہ فاطمہ بتاتی ہیں، ’مجھے بہت فکر ہے کہ میرے چھوٹے بہن بھائیوں میں سے کوئی اغوا ہو جائے گا۔ بےگھر بچے بعض اوقات ریپ کا شکار بنتے ہیں، انہیں قتل کیا جاتا ہے اور ان کی لاشیں شہر میں کوڑے کے ڈھیروں پر پھینک دی جاتی ہیں۔‘

10 افراد پر مشتمل اپنے خاندان کی کفالت میں معاونت کے لیے فاطمہ کو محض سات سال کی عمر میں سڑکوں پر آنا پڑا۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں، ’میں شام چھ بجے سے سڑکوں پر پھول بیچنا شروع کرتی ہوں اور صبح تین بجے کے قریب گھر واپس آتی ہوں۔ کئی ایسے مواقع آئے جب مجھے اپنی زندگی خطرے میں محسوس ہوئی اور کئی مرتبہ مردوں نے مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی۔‘

ایسے بے گھر بچوں کی مدد کے لیے ریاست کی طرف سے ایک ادارہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو موجود ہے جس کا مرکزی دفتر لاہور میں ہے۔ بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد کہتی ہیں، ’ہمارا مشن بے سہارا، نظر انداز، بدسلوکی کا شکار اور بھاگے ہوئے بچوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنا ہے تاکہ وہ معاشرے کے مفید اور کارآمد ارکان میں تبدیل ہو سکیں۔

’کرونا کی وبائی کے دوران بہت سے خاندان اپنے ذرائع آمدن سے محروم ہو گئے اور ہم نے سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور بچوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا۔ ہماری اگست 2021 میں شروع کی گئی انسداد گداگری مہم نے ایک ہی دن میں سینکڑوں بچوں کو محفوظ بنایا۔‘

دی انڈیپنڈنٹ میں شائع اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فاطمہ کے والد احمد بتاتے ہیں کہ ’ہمارا سب سے بڑا خوف خود چائلڈ پروٹیکشن ویلفیئر بیورو ہے۔ وہ ہمارے بچوں کو سڑکوں سے لے جا رہے ہیں جو ایسے ہے جیسے وہ بطور خاندان ہم سے ہماری روزی روٹی چھین رہے ہوں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کو سڑکوں پر بھیج کر اپنی گزر بسر کریں۔‘

نیک نیتی کے باوجود بےگھر بچوں کی پکڑ دھکڑ نے کئی دیگر مسائل کا باب کھول دیا ہے جس میں ایک یہ ہے کہ وہ والدین جن کے پاس کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی دستاویزات نہیں وہ اپنے بچوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنی جگہ ایسے رشتہ داروں، دوستوں یا یہاں تک کہ اجنبیوں کو بھیجنے پر مجبور ہیں جن کے پاس یہ دستاویزات ہوں۔

واضح‌رہے کہ اس وقت متحرک معاون غیر سرکاری تنظیمیں پسماندہ افراد کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حکام کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں، تاہم پاکستان میں خیراتی ادارے کے طور پر کام کرنا کچھ وجوہات کے پیش نظر آسان نہیں ہے.

Leave a reply