پوری دنیا میں میڈیکل کی فیلڈ جن میں ایم بی بی ایس اور ڈینٹسٹ کی فیلڈ میں داخلہ لینے کے لیے ایم کیٹ یا عام زبان میں انٹری ٹیسٹ کو پاس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد میرٹ کی بنیاد پر طلباء اہل ہوتے ہیں ان کو متعلقہ فیلڈز میں پرائیویٹ یا سرکاری اداروں میں داخلہ ملتا ہے۔ داخلہ ملنے کے بعد وہ وہاں سے میڈیکل ڈاکٹر کی پانچ سالہ ڈگری مکمل کرتے ہیں۔
پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی میڈیکل فیلڈ میں داخل لینے کے لیے میڈیکل کے انٹری ٹیسٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر سال لاکھوں طلباء ٹیسٹ پاس کرکے میڈیکل کی فیلڈ میں شامل ہو جاتے ہیں جہاں سے وہ اپنی ڈگری مکمل کرکے پروفیشنل ڈاکٹر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ہر سال کی طرح امسال بھی میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کے لیے کم و بیش دو لاکھ طلباء و طالبات نے میڈیکل کالج کا ایڈمیشن ٹیسٹ دیا۔ پاکستان میڈیکل کمیشن نے اس دفعہ نیا تجربہ کرتے ہوئے ٹیپس نامی کمپنی کو ٹیسٹ لینے کا ٹھیکہ دیا جس نے آن لائن ٹیسٹ لیا۔ یادرہے ٹیپس وہ کمپنی ہے جس کو میڈیکل کے طلباء و طالبات کے داخلے فارمز موصول ہونے کے بعد ٹھیکہ دیا گیا۔ جب ٹیسٹ شروع ہوا تو ٹیپس کی ویب سائٹ ہی ڈاؤن ہوگئی اور طلباء کو شدید ذہنی ٹینشن میں الجھا دیا گیا۔ اکثر جگہوں پر ویب سائٹ نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا۔ جب امتحانات کے بعد نتائج کا اعلان کیا گیا تو دو لاکھ طلباء و طالبات میں سے صرف 5-7 فیصد طلبہ کامیاب قرار پائے۔ فیل ہونے والوں میں بورڈز کے ٹاپرز بھی شامل تھے۔ سرکاری آفیسران اور دو ممبران قومی اسمبلی کے بچے بھی ٹیسٹ میں فیل ہوگئے جس کی ناکامی کا ذمہ دار ٹیپس کے سسٹم کو قرار دیا گیا۔ پورے ملک کے طلبہ اس ناانصافی پر سراپا احتجاج ہوگئے اور شہر شہر مظاہرے شروع کردیے۔ سینکڑوں طلباء و طالبات نے اسلام آباد میں پاکستان میڈیکل کمیشن کے مرکزی دفتر کا رخ کیا اور حکام سے ٹیسٹ دوبارہ لینے کی درخواست کی۔ کوئٹہ میں احتجاجی طلبہ اور پولیس میں شدید جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں ایک طالبہ شہید اور درجنوں طلبہ زخمی ہوگئے۔ پولیس نے متعدد طلبہ کو گرفتار بھی کیا جن کو بعد ازاں حکومت کی ہدایت پر رہا کردیا گیا۔ مگر تب تک پورے ملک میں مظاہرے زور پکڑ چکے تھے۔ بچوں کے ساتھ ان کے والدین بھی احتجاج میں شامل ہوگئے جو صرف ایک ہی مطالبہ کررہے تھے کہ ٹیسٹ دوبارہ لیا جائے۔ سوشل میڈیا پر مسلسل ٹاپ ٹرینڈ رہنے کے بعد میڈیا نے بھی اس معاملے کو کوریج دینا شروع کردی۔ پاکستان میڈیکل کمیشن کی طرف سے شنوائی نہ ہوئی اور طلباء و طالبات نے ان کے دفتر کے سامنے دھرنا دے دیا۔ ایک طلبہ یونین کے رہنما چوہدری عرفان یوسف احتجاجی طلبہ کے لیڈر کے طور پر سامنے آئے اور تمام مطالبات اور دھرنے کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔
جب چار روز کے دھرنے سے کوئی بات نہ بنی تو دھرنے کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک پر شفٹ کردیا گیا۔ یادرہے یہ وہی ڈی چوک ہے جہاں موجودہ وزیر اعظم عمران خان اور منہاج القرآن انٹرنیشنل کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے 2014 میں اکٹھے دھرنا دیا تھا۔ ڈی چوک پر تین دن گزرنے کے بعد بھی حکومت کی طرف سے کسی قسم کا کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ تب عرفان یوسف نے اگلے لائحہ عمل کے طور پر وزیر اعظم ہاؤس کی طرف پرامن مارچ کرنے کا اعلان کردیا۔ جیسے ہی طلباء و طالبات نے مارچ شروع کیا پولیس نے شدید لاٹھی چارج کرکے درجنوں طالب علموں کو زخمی کردیا۔ تب میڈیا نے معاملے کو کوریج دی تو سینیٹ اجلاس میں یہ معاملہ زیر بحث آیا۔ سابق ڈپٹی سپیکر سینیٹ سلیم مانڈوی والا، خرم نواز گنڈا پور سیکرٹری جنرل پاکستان عوامی تحریک سمیت دیگر پارلیمنٹیرینز نے دھرنے میں شرکت کی اور احتجاجی طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ اتنی بڑی کوریج ملنے کے باوجود بھی حکومت کی طرف سے کسی قسم کا پالیسی بیان سامنے نہیں آیا۔ نائب صدر پاکستان میڈیکل کمیشن علی رضا نے معاملے پر سٹوڈنٹس کو جھوٹا قرار دے کر جان چھڑا لی۔ مگر احتجاجی طلبہ کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے۔ کئی طلبہ تنظیمات، ڈاکٹروں کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے دھرنے میں شرکت کرکے کے احتجاجی طلبہ سے اظہار یکجہتی کیا۔ اگلے لائحہ عمل کا اعلان 4 اکتوبر کو دینے کا اعلان سامنے آنے کے بعد پارلیمنٹ کی ہیلتھ کمیٹی نے نوٹس لیا اور معاملے پر انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ 4 اکتوبر کو ہی معلوم ہوگا کہ احتجاجی طلبہ کیا لائحہ عمل پیش کرتے ہیں۔
Twitter Handle: @ImranBloch786