میرا جسم میری مرضی تحریر:کرنل ریٹائرڈ افتخار نقوی

0
72

اس موضوع پر ایک عرصہ سے قلم اٹھانا چاہ رہا تھا لیکن موقعہ و وقت نہ مل سکا۔اس موضوع کو احاطہ کرنا ایک مشکل امر ہے لیکن کوشش ہوگی کہ انصاف سے کام لیا جائے۔

ایک زمانے سے بحث رہی ہے کہ جناب عورت کے حقوق نہیں ادا ہوتے۔عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا۔مرد استحصال کا مرتکب ہوتا ہے۔یہ کہانی آج کی نہیں ہے بلکہ صدیوں سے یہ آوازیں بلند ہیں اور آئندہ ان میں شدت آتی رہے گی۔
اللہ سب کا خالق ہے۔انسان کو خلقت کے اعتبار سے مرد و عورت میں تقسیم نہیں کیا گیا۔یہ عجب معاملہ ہے کہ عورت اپنے آپ کو الگ تصور کرے یا مرد خود کو الگ مان لے۔جبکہ خلقت و تولید کا سلیقہ و قرینہ ایک ہے۔
اسلام نے عورت کی حفاظت کیلئے بہت سے قوانین بنائے ہیں جو عام شریعت سے ہٹ کر ہیں۔مثال کے طور پر،قتل کے گواہوں کی تعداد دو (2) شریعت نے مقرر کی لیکن جب زنا کی بات آئی تو یہاں چار عادل گواہ طلب کئے۔حالانکہ قتل سرعام ہو سکتا ہے،جبکہ زنا کا سرعام ہونے احتمال نہ ہونے کے برابر ہے۔مقصد عورت کی عزت و حرمت کو محفوظ کرنا ہے۔اسی طرح جب کوئی حاملہ خاتون کسی بھی جرم کی مرتکب پائی جائے تو اس کی سزا مؤخر کرنے کا حکم آتا ہے۔طلاق حاملہ عورت کی نہیں ہو سکتی۔حتاکہ بدکردار عورت کو جس کی گواہیاں پوری نہ ہو سکیں، بھی چھوڑنے کا حکم ہے مارنے کا نہیں۔یہ سب کچھ عام عورت کیلئے حفاظتی اقدامات کئے گئے جن میں سے چند بیان کئے ہیں اشاراتی طور پر۔تفصیل اس کی خود ایک ضغیم باب بن سکتا ہے۔
معاشرے میں استحصال اور ظلم ہی تب ہوتا ہے جب کسی کا حق روک لیا جائے۔مثلا” خواتین کی اجرت کم کر دی جائے مرد کے مقابلے میں، بسوں اور ویگنوں میں سیٹیں کم ہوں حالانکہ آبادی کے لحاظ سے خواتین مردوں سے زیادہ تعداد میں ہیں، جائیداد میں حصہ نہ دینا، بغیر عورت کی اجازت کے اسکی شادی طے کرنا، بچیوں کو انکی عمر سے بہت زیادہ یا بہت کم عمر سے شادی کروانا فقط جائیداد بچانے کیلئے، ظلم تو یہ ہے کہ جب کسی گاؤں میں بچی کی شادی قرآن سے کی جاتی ہے (استغفراللہ) تاکہ جائیداد گھر میں رہے تو میرے خیال میں اس طرح کے ظلم سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اگر مرد طلاق دے تو دوسری شادی کر لے لیکن معاشرے میں طلاق یافتہ عورت کو اتنا ذلیل سمجھا جانا کہ جیسے وہ اچھوت ہو گئی، ظلم ہے۔ اللہ نے عورت کو معاشرے میں بہت بلند اور عزت کا مقام دیا ہے۔ ماں (عورت) کے پاؤں تلے جنت رکھی، بہن (عورت) کو رحمت کہا، بیٹی (عورت) کو والد کیلئے رحمت قرار دیا، بیوی (عورت) چار رشتوں (شوہر، بیٹا، بھائی اور والد) کو جنت لیجانے کی صلاحیت رکھتی ہے اگر وہ ایمان والی ہے۔
میرا جسم میری مرضی نہیں ہوتی، بلکہ مرضی اللہ کی ہے کہ زندگی کیسے گزاریں۔ وحشی جانور بن کر ہم بستری اور ننگے پن سے منع فرمایا، ستر ڈھانپنے کا حکم ہے ناکہ شلوار قمیض یا کسی مخصوص لباس میں قید کیا گیا۔ لیکن اگر ویسے عام طور پر دیکھیں تو مرد کو حاکمیت اللہ نے دی ہے جو 4 شرطوں کی وجہ سے ہے۔
1۔ نان نفقہ
2۔ محبت و خلوص کیساتھ نگہداشت
3۔ حقوق کی بجاآوری
4۔ شریعت کی پابندی

اسی طرح عورت کو بھی پابند کیا
1۔ شوہر و اولاد کی نگہداشت
2۔ گھر کی نگہداشت
3۔ ایمان پر قائم ہونا
4۔ محبت و خلوص

دونوں کیلئے مشترکہ شرائط بہت ہیں جیسے۔
۔ بدکاری سے اجتناب
۔ بدکلامی سے اجتناب
۔ ایکدوسرے کی عزت و تکریم
۔ بچونکی تعلیم و تربیت
۔ معاشرے میں مثبت کردار
۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

اگر خواتین جو میرا جسم میری مرضی پر یقین رکھنے والی یا مرد جو اس پر یقین رکھتے ہیں اور وہ مرد و خواتین جو اس نعرہ سے سخت اختلاف رکھتے ہیں، سب ہی ایک بار اسلامی قوانین اور احکامات الہی کا مطالعہ کر لیں تو یقین جانیں کہ مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔ آئے روز جو زنا بالجبر وغیرہ کے معاملات ہیں، ان پر بہت سخت قوانین موجود ہیں، قرآن میں بھی اور پاکستان پینل کوڈ میں بھی۔ مسئلہ ہمارے یہاں قوانین کا ہونا یا نہ ہونا نہیں بلکہ ان قوانین کا درست اور سختی سے نفاذ ہے۔مجرموں کا بچ نکلنا فقط عدلیہ اور تحقیقی اداروں کی غفلت یا انکے ذاتی مفاد کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کوئی قانون بنا لیں لیکن جب تک قانون کے نفاذ کیلئے صاحبان کردار نہ ہونگے، وہ قوانین ردی کا ٹکڑا ہی رہیں گے اور معاشرہ انحطاط کا شکار۔

میری گزارش ہے کہ اس فضول بحث کو سمیٹ دیں۔ اسکا حاصل کچھ نہیں۔ اپنے فرائض کی طرف سب توجہ دیں، حقوق خود ملنا شروع ہونگے۔ ادارے اپنا کام کریں اور چیک اینڈ بیلنس کو قائم کریں۔
والسلام۔

لاہور

Leave a reply