ملکی تاریخ میں آج تک جتنے بھی الیکشن ہوئے تقریبا سب میں دھاندلی اور الیکشن چوری کا الزام لگتا آ رہا ہے۔ مشرف کے مارشل لاء کے اختتام پہ جب پی پی اقتدار میں آئی تو ن لیگ سمیت باقی سب نے دھاندلی الیکشن قرار دیا۔ پھر جب ن لیگ 2013میں الیکشن جیت کر پاور میں آئی تو تحریک انصاف سمیت باقی سب سیاسی جماعتوں نے دھاندلی زدہ الیکشن قرار دیا۔ اس دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف
14-08-2014 میں عمران خان کی قیادت میں باقاعدہ تحریک شروع کی جو لانگ مارچ کی صورت میں لاہور سے اسلام آباد ڈی چوک روانہ ہوا۔ یہ احتجاج دھرنے کی صورت اختیار کر گیا اور تاریخ کا سب سے ذیادہ دن دیئے جانا والا پر امن سیاسی دھرنا بن گیا ۔ یہ دھرنا 126دن کا تھا۔چودہ اگست سے شروع ہونے والا دھرنا 17دسمبر 2014کو اختتام پزیر ہوا۔ اس دھرنے کو اے پی ایس حملہ ہونے کی وجہ اور ملکی حالات کے پیش نظر ختم کیا گیا۔ لیکن دھاندلی کے خلاف شروع کی گئی تحریک اپنی جگہ کسی نا کسی صورت چلتی رہی۔
عمران خان جب 2018میں وزیر اعظم بننے تو انہوں اپنی پہلی تقریر میں ہی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ میں واحد بندہ تھا جس نے کرکٹ کی تاریخ میں نیوٹرل ایمپائر لائے اور میں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھی انشاءﷲ پہلا بندہ ہوں گا جو ایک ایسا سسٹم لاؤں گا جس کو الیکشن ہارنے والا بھی مانے گا اور جیتنے والے کو بھی دھاندلی یا رشوت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اب جب عمران خان اپنی کی ہوئی بات کو عملی جامہ پہنانے نکلے ہیں تو راستے میں اپوزیشن اور الیکشن کمیشن رکاوٹ بننے نظر آ رہے ہیں۔
بظاہر لگ تو ایسے رہا ہے کہ اپوزیشن عمران خان کی مخالفت میں اس حد تک آگےچلی گئی ہےکہ اگر عمران خان کہے سورج مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب میں غروب ہوتا ہے تو اپوزیشن شاید اس کی بھی مخالفت کر دے۔ لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان جو ایک آئینی اور خود مختار ادارہ ہے کو حکومت کیساتھ ملکر الیکشن ریفارمز پر سہولت کاری فراہم کرنی چاہئے۔ اپنی تجاویز اور الیکٹرانک مشین میں موجود خامیاں اور ان کا حل نکالنے کیلئے کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے لیکن بدقسمتی سے الیکشن کمیشن کے اب تک کئے گئے اقدامات سے عوام کو یہی تاثر مل رہا ہے کہ شاہد الیکشن کمیشن الیکشن ریفارمز کیلئے ذہنی طور پہ تیار ہی نہیں۔
اس سلسلے میں وزارت سائنس اور الیکشن کمیشن کی تکنیکی ٹیم کے درمیان الیکٹرانک مشین پر تفصیلی تبادلہ خیال بھی ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن کی ٹیم نے 37اعتراضات اٹھاکر اس مشین کو فلحال رد کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پہ الیکشن کمیشن کے صاف انکار پر بہت تنقید دیکھنے کو مل رہی ہے۔اسی دوران کسی صارف نے سوشل میڈیا پر یہ خبر شیئر کر دی کہ الیکٹرانک مشین پر الیکشن کمیشن کے 37اعتراضات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ
"مشین کے بٹن میں ایلفی ڈال کر اسے غیر فعال کیا جا سکتا ہے” کو نا صرف آڑے ہاتھوں لیا گیا بلکہ خوب مزاخ بھی اڑایا گیا۔ یہ خبر سچ ہے یا جھوٹ بہرحال اس کی تصدیق یا تردید الیکشن کمیشن ہی کر سکتا ہے۔لیکن اگر دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن کے زیادہ تر اعتراضات واقعی "ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا” دیکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ نہیں ہوئی، قانونی ترامیم ضروری ہیں، تربیت یافتہ سٹاف کی کمی ہے, مشین ہیک ہو سکتی ہے, مشین چوری ہو سکتی ہےوغیرہ وغیرہ۔
اگلےجنرل الیکشن میں ابھی دو سال پڑے ہیں ۔ شفاف انتخابات کی تمام ذمہ داری نا صرف الیکشن کمیشن کی ہے بلکہ اس کی خواہش تمام سیاسی جماعتوں کی بھی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اگلے جنرل الیکشن سے پہلے وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ اور سٹاف کی تربیت ممکن ہے اور قانونی ترامیم کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔حکومت کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں اکثریت ہے وہ ان اعتراضات کو حل کر سکتی ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن الیکٹرانک مشینوں پر الیکشن کروانے کے لئے ذہنی طور پہ تیار بھی ہے یا نہیں؟
الیکشن کمیشن کے کچھ اعتراضات جائز بھی ہیں ۔
مثلاالیکشن کمیشن کے مطابق ایسے ووٹر جن کو ٹچ موبائل کااستعمال تک نہیں آتا وہ خود سے ووٹ کیسے ڈالیں گے؟
پولنگ بوتھ پر ازخود الیکٹرانک مشین سے بیلٹ پیپر کیسے نکالیں گے؟
ایسے ان پڑھ ووٹر جن کو الیکٹرانک مشین چلانی ہی نہیں آتی ان کو کسی نا کسی کی سہورت درکار ہو گی۔ اس سے ووٹر کی شناخت اور اس کی راز داری متاثر ہو سکتی ہے۔ ووٹ کی راز داری کا اہتمام اور ووٹر کی شناخت کو خفیہ رکھنے کا انتظام کیسے کیا جائے گا؟
مشین کی منتقلی اور اس کی حفاظت کون اور کیسے کرے گا؟
الیکشن کمیشن کا یہ کہنا کہ شفافیت کی کمی کی وجہ سے جرمنی اور ہالینڈ , آئر لینڈ,اٹلی اور فن لینڈ نے مشینی ووٹنگ چھوڑ دی ہے۔
اس طرح کے اعتراضات کو حکومت دوبارہ دیکھے اور حل نکال لے تو عین ممکن ہے آنے والا الیکشن الیکٹرانک ووٹٹنگ مشین سے ہو جائیں۔
اب دیکھنا ہے کہ حکومت کیسے الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کومطمئن کر تی ہے۔اگر حکومت الیکشن کمیشن کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر آمادہ کر لیتی ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کو مطمئن کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔ کیونکہ شفاف , آزادانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کرانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہوتی ہے۔
اب یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب آنے والا وقت ہی دے پائے گا۔
کیا وزیراعظم عمران خان اپنے دور اقتدار میں فری اینڈ فیئر الیکشن کیلئے راہ ہموار کر پائیں گے؟
کیا وزیراعظم عمران خان نیوٹرل ایمپائر لانے میں کامیاب ہو پائیں گے یا وہی پرانا دھاندلی ذدہ سسٹم ہم پر مسلط رہے گا؟
کیا الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے آنے کے بعد دھاندلی جیسے الزامات ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن ہو پائیں گے یا نہیں؟
اور سب سے ہم سوال کیا الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حصول کے بعد ہمارے کچھ سیاستدان جو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت فوج کو بدنام کرتے آ رہے ہیں کیا وہ سلسلہ رُک پائے گا یا نہیں؟
پاکستان وجود میں آئے تقریبا 74برس ہو گئے ہیں۔ اب تو جدید ٹیکنالوجی کا دورہے۔ ہمیں الیکشن کیلئے کم از کم ایسا سسٹم باہمی اتفاق سے مرتب کر لینا چاہئے جس سے ہارنے والا اپنی ہار مان لے اور جیتنے والے کو رشوت اور دھاندلی کی ضرورت ہیں نا پڑے۔
دنیا چاند پہ جانے کی باتیں کررہی ہے اور ہمارے لیڈر ابھی تک دھاندلی ہوئی یا نہیں ہوئی جیسی نابالغ بحث میں پھنسے ہوئے ہیں۔
@saif__says