جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت جمع

شکایت خیبر پختونخوا کے وکیل مرتضیٰ قریشی کی جانب سے جمع کروائی گئی
0
42
mohsin akhtar

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت جمع کروا دی گئی،

شکایت خیبر پختونخوا کے وکیل مرتضیٰ قریشی کی جانب سے جمع کروائی گئی، درخواست میں کہا گیا ہے کہ فاضل جج نے اسلام آباد کی ضلعی عدلیہ میں اپنے جونیئر اور من پسند افراد کی بھرتیاں کروائیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنے خاندان کے مالی اثاثوں کی مالیت 5 کروڑ 60 لاکھ ظاہر کی،حقیقت میں فاضل جج کے اثاثوں کی کل مالیت 1 ارب 87 کروڑ سے زائد ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے 182 کروڑ کے اثاثے ٹیکس بچانے کے لیے ظاہر نہیں کیے، جسٹس محسن اختر کیانی نے بیوی بچوں کے غیرملکی دوروں پر 6 کروڑ سے زائد رقم خرچ کی، یہ اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ پاکستان کا کوئی جج انہیں برداشت نہیں کر سکتا ہے،سپریم جوڈیشل کونسل جوڈیشل مس کنڈکٹ کا مرتکب ہونے پر جج کے خلاف انکوائری کرے، سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس محسن اختر کیانی کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کرے،شکایت کے ساتھ اسلام آباد ضلعی عدلیہ کے متاثرہ ججز کا چیف جسٹس پاکستان کو لکھا خط بھی لف کیا گیا ہے

دوسری جانب سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی ریگولیٹ کرنے کے حوالے دائر درخواست پر سماعت ہوئی ،دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جج کے مستعفی ہونے کے بعد کونسل کاروائی ختم کردیتی ہے، آرٹیکل 209 میں جج کو عہدے سے ہٹانے کی بات کی گئی ہے جج خود عہدے سے ہٹ جائے تو کچھ نہیں لکھا، درخواست گزار چاہتا کیا ہے کیا کونسل کو عدالت ہدایات دے؟کیا عدالت کونسل کو گائیڈ لائنز دے سکتی ہے ؟ آج کل شکایت کونسل کے پاس جانے سے پہلے سوشل میڈیا پر چل جاتی ہے، سنجیدہ معاملہ ہونے کی وجہ سے کیس کو توجہ سے سن رہے ہیں، وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عدالت نے مختلف مقدمات میں کونسل کی کارروائی کا جائزہ لےکر ہدایات دیں ہیں،جسٹس منیب اخترنے کہا کہ ہم نے کونسل کو ہدایت کسی فیصلے میں نہیں دیں، عدالت فیصلہ دے عمل نہ ہو تو کیا پھر کونسل کے خلاف توہین عدالت ہوگی ؟

جسٹس منیب اختر نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کونسل میں شکایت دینے والے کو ہتھیار دینا چاہ رہے ہیں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لوگ بغیر میرٹس کے شکایت بھیجتے ہیں،سوشل میڈیا پر لگا دیتے ہیں،کونسل کارروائی نہیں کرتی تو یہ انکا فیصلہ ہے،جج کا وقار ہے اور حقوق ہیں، آپ کہہ رہی ہیں کہ جج کے خلاف شکایت آنے پر فوری کاروائی کرنی چاہیے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ممکن ہے کہ کل سترہ ججز کے خلاف شکایات آجائیں، عدالت نے کہا کہ کیس میں مناسب حکم جاری کریں گے،

اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ پلی بارگین کے بعد بھی ملزم کا اعتراف جرم تصور نہیں ہو گا،چیف جسٹس

 سپریم کورٹ مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گی

نیب ترامیم کیخلاف درخواست،فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کرینگے،چیف جسٹس

Leave a reply