اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ پلی بارگین کے بعد بھی ملزم کا اعتراف جرم تصور نہیں ہو گا،چیف جسٹس

0
96
supreme court

اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ پلی بارگین کے بعد بھی ملزم کا اعتراف جرم تصور نہیں ہو گا،چیف جسٹس
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ابھی اصل کیس باقی ہے، دیکھنا ہوگا کیا نیب قانون میں تبدیلی بنیادی حقوق سے متصادم ہے یا نہیں؟یہ بھی دیکھنا ہے نیب قانون سے درخواست گزار کے حقوق کیسے متاثر ہوئے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی دلیل ہے کہ نیب قانون سے کسی ملزم کا جرم قبول کرنا اب کوئی جرم ہی نہیں رہا،وکیل عمران خان خواجہ حارث نے کہا کہ اب درخواستیں دیے بغیر مقدمات واپس بھیجے جا رہے ہیں، پہلے سے پلی بارگین یا رضاکارانہ رقوم کی ادائیگی بھی واپس ہو جائے گی،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 2018 میں نیب قانون کی تبدیلی سے پہلے کیا پلی بارگین کی رقم اقساط میں ادا ہو رہی تھی، اب دیکھنا چاہتے ہیں کیا پلی بارگین یا رضاکارانہ رقوم کی واپسی پر اقساط ملتی رہیں یا ادائیگی نہیں ہوئی، وکیل نے کہا کہ اس کا جواب نیب کے پاس ہوگا،نیب کی 2019 میں پلی بارگین کی رقم اور ریکوری میں 6 ارب کا فرق ہے، سال 2020 میں 17.2 ارب کی پلی بارگین معاہدے ہوئے، 8.2 ارب ریکوری ہوسکے،ترمیم کے بعد تمام بقایا رقم نیب ریکور نہیں کر سکے گا،

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ترمیم سے پہلے نیب کو رقم ریکور ہو رہی تھی؟ کیا 2018 کے بقایاجات 2021 تک کلیئر ہوچکے تھے؟ ترامیم سے پہلے بھی لگتا ہے نیب ریکوری نہیں کر رہا تھا، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب کو طے شدہ شیڈیول کے تحت اقساط مل رہی تھیں،نیب حکام اس حوالے سے بہتر تفصیلات دے سکتے ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ترمیم سے لگتا ہے جو ریکوری ہوگئی وہ رہے گی مزید نہیں ہوسکتی،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پلی بارگین بقایا جات نہ دینے والوں کا ترمیم کے بعد ٹرائل ہوگا، ٹرائل میں ملزمان کو سزا بھی ہوسکتی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر مقدمہ 50 کروڑ سے کم کا ہوا تو ازخود خارج ہوجائے گا،احتساب عدالت نیب کا دائرہ اختیار ختم کردے تو پیسہ سرکار کے پاس کیسے رہے گا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مقدمہ ٹرائل کورٹ میں واپس جانے سے جرم کیسے ختم ہوگا؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم میں نیب کا اختیار 1985 سے ہی ختم کر دیا گیا ہے، نیب کا اختیار ختم ہوگیا تو ریکور شدہ رقم کیسے برقرار رہے گی،جرم کی نوعیت کوئی بھی ہو، ٹرائل کورٹس 50 کروڑ سے کم کا ہر کیس واپس بھیج رہی ہیں، دائرہ اختیار ماضی سے ختم ہونے پر پلی بارگین کا حکم بھی منسوخ ہوجائے گا،

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب قانون کا سیکشن 25 پلی بارگین کی قسط کی عدم ادائیگی سے متعلق ہے،وکیل عمران خان خواجہ حارث نے کہا کہ نئی ترامیم میں ملزم پلی بارگین کی رقم واپسی کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے، ایک شخص پلی بارگین کی قسطیں کیوں ادا کرے گا جب اسے معلوم ہے کہ وہ نئے قانون سے مستفید ہو سکتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک آپ کیس کے بنیادی نکتے پر آئے ہی نہیں ہیں، ابھی آپ نے بتانا ہے کہ نیب ترامیم سے کون سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ پلی بارگین کے بعد بھی ملزم کا اعتراف جرم تصور نہیں ہو گا، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون کے سیکشن 9 اے فائیو میں ترمیم کے بعد ملزم سے نہیں پوچھا جا سکے کہ اثاثے کہاں سے بنائے،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا اب کسی کو غیر قانونی ذرائع سے بنائے گئے اثاثے نیب کو ثابت کرنا ہوں گے؟ نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کل دن ایک بجے تک ملتوی کر دی گئی

خواتین کو تعلیم سے روکنا جہالت،گزشتہ 7ماہ سے انتشار کا کوئی واقعہ نہیں ہوا،طاہر اشرفی

کسی بھی مکتبہ فکر کو کافر نہیں قرار دیا جا سکتا ،علامہ طاہر اشرفی

امریکا اپنی ہزیمت کا ملبہ ڈالنا چاہتا ہے تو پاکستان اس کا مقابلہ کرے،علامہ طاہر اشرفی

وزیراعظم  نے مکہ میں دوران طواف 3 مرتبہ مجھے کیا کہا؟ طاہر اشرفی کا اہم انکشاف

تحریک انصاف نے نئی نیب ترامیم کوچیلنج کردیا

نیب ترامیم کیخلاف درخواست،فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کرینگے،چیف جسٹس

 سپریم کورٹ مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گی

واضح رہے کہ عمران خان نے موجودہ حکومت کی جانب سے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے ،عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں عمران خان نے استدعا کی تھی کہ سیکشن 14،15، 21، 23 میں ترامیم بھی آئین کے منافی ہیں۔ نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19A, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

Leave a reply