نیب ترامیم کیخلاف درخواست،فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کرینگے،چیف جسٹس

0
63
نیب ترامیم کیخلاف درخواست،فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کرینگے،چیف جسٹس

نیب ترامیم کیخلاف درخواست،فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کرینگے،چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی .چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا گزشتہ روز کوئی مزید ترمیم کی گئی ہے؟اس معاملے پر فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کرینگے، ہم اس سماعت میں مزید وقت دیں گے، دوسری طرف سے بھی عدالت کو بہتر معاونت ملے گی ،ایک چارٹ پیش کیا گیا تھا اس پر دلائل دینا چاہیں گے؟

نیب حکام نے عدالت میں کہا کہ نیب اٹارنی جنرل کے دلائل کو اپنائے گا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت میں ایک تحریری معروضات جمع کرائیں، خواجہ حارث نے کہا کہ دو گراونڈ زپر یہ ترامیم چیلنج کی ہیں ایک یہ آئین کے سائلنٹ فیچر کی خلاف ورزی ہے ،پارلیمانی طرز حکومت میں احتساب کی بات موجود ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ جو قانون کی پروویژن ہیں وہ اوورلیپ نہیں کررہی ہیں ؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت جو تضاد ہے وہ اکیڈمک بحث چاہتی ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ جو ابھی دوسری ترامیم کی گئی ہیں ان کو ابھی چیلنج نہیں کیا،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ ان ترامیم سے متعلق مزید تفصیل جمع کرائیں،شاہد پہلے پانچ ملین والی بات نہیں تھی لیکن اب شامل کی جا چکی ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ وہ ترامیم جو ہوئی ہیں وہ چیلنج کررہے ہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ ترامیم جو کی گئی ہیں وہ صدر مملکت کے پاس منظوری کے لئے بھیجی گئی ہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے ایک ترمیم شدہ درخواست بھی جمع کرائی ہے جس میں تفصیلات ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ کیسے کارروائی آگے چلانا چاہتے ہیں، مخدوم علی خان نے معروضات جمع کرانی ہونگی اور نیب کی جانب سے بھی

خواجہ حارث نے عدالت میں کہا کہ نئی ترامیم کا مسودہ گزشتہ روز عدالت میں جمع کروا دیا ہے،نیب قانون میں ہونے والی ترامیم بھی چیلنج کرینگے،یہ ترامیم آئین کے سائلنٹ فیچر کی انکروچمنٹ ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس میں اسلامک پوائنٹ آف ویو بھی دیکھنا ہوگا ،وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ قانون کو ختم نہیں کیا جارہا ہے،حقیقت یہ ہے کہ قانون میں تبدیلی لائی جارہی ہے اس شق کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہونگے، وکیل وفاقی حکومت نے عدالت میں کہا کہ ابھی نیب قانون میں نئی ترمیم محض مفروضہ ہے، وکیل مخدوم علی نے کہا کہ جب تک نیب قانون میں نئی ترمیم ایکٹ آف پارلیمنٹ نہ بن جائے اسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا،صدر مملکت نے اگر نئی ترمیم پر دستخط نہ کیے تو معاملہ مشترکہ اجلاس میں جائے گا،مشترکہ اجلاس میں نیب قانون میں حالیہ ترمیم منظور ہوتی ہے یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے، وکیل عمران خان نے کہا کہ ہم نیب قانون میں حالیہ نئی ترمیم کو ابھی چیلنج نہیں کر رہے،موجودہ ترامیم آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی ہیں،

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات خود احتساب کا ایک ذریعہ ہیں،انتخابات ایک سیاسی احتساب ہے جہاں ووٹر اپنے نمائندوں کا احتساب کرتا ہے،وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ وہ ترامیم جو آئین کے بنیادی ڈھانچے کے منافی ہیں ان کو چیلنج کیا جا سکتا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ ہمارا کام ہے کہ خالی جگہ کو پر کریں؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں جن میں قوانین بنانے کا کہا گیا ہے،موجودہ ترامیم نے نیب قانون کو غیر موثر کر دیا ہے،خواجہ حارث نے کہا کہ نیب ترامیم سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور اثاثہ جات کیسز ختم ہوچکے ،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس احتساب کیلئے ضروری ہے؟ چھوٹی چھوٹی ہاوسنگ سوسائٹیز میں لوگ ایک 2 پلاٹس کے کیس میں گرفتار ہوئے،پہلے ہر مقدمہ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جاتا تھا،

نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر سماعت 19اگست تک ملتوی کر دی گئی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دے کر انسداد دہشتگردی عدالت سے بوجھ کم کیا،خواجہ حارث نے کہا کہ گڈ گورننس اور احتساب بھی عوام کے بنیادی حق ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کوئی منصوبہ ناکام ہونے پر مجاز افسران گرفتار ہوجاتے تھے، گرفتاریاں ہوتی رہیں تو کونسا افسر ملک کیلئے کوئی فیصلہ کرے گا، نیب ترامیم کے بعد فیصلہ سازی پر گرفتاری نہیں ہو سکتی، نیب ترامیم سے کوئی جرم بھی ختم نہیں ہوا، خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم کے بعد تمام مقدمات عدالتوں سے خارج ہو جائیں گے، سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ فریقین سے عدالت میں تحریری معروضات جمع کرائیں،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت کی حالت دیکھیں کیا ہوگئی ہے ، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رواں سال ہونے والی ترامیم کا اطلاق 1985 سے کیا گیا،ماضی سے اطلاق ہوا تو سزائیں بھی ختم ہونگی اور جرمانے بھی واپس ہونگے،اس طرح تو پلی بارگین کی رقم بھی واپس کرنا پڑیں گی کیا پارلیمان اپنے یا مخصوص افراد کے فائدے کیلئے قانون سازی کر سکتی ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو مقدمات ختم ہوچکے ان پر ترامیم کا اطلاق نہیں ہوگا،وکیل عمران خان نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثوں کا سب سے پہلا سوال حضرت عمر سے ہوا تھا، ترمیم کے بعد کرپشن ثابت ہونے تک آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس نہیں بن سکتا، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون پارلیمنٹ سے منظور کیا ہے اس کا احترام بھی ضروری ہے،ترامیم کسی آئینی شق سے متاثر نظر نہیں آ رہیں،آپکے مطابق نیب ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے کے ایک حصے یعنی احتساب کیخلاف ہیں،آئین کا بنیادی ڈھانچے ہونے سے متفق نہیں ہوں،خواجہ حارث نے کہا کہ بنیادی ڈھانچے کا تصور موجود ہے آپ چاہیں تو ماضی کا عدالتی فیصلہ واپس لے لیں،

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم میں بیرون ملک سے قانونی معاونت حقوق معاہدے کے تحت شواہد ناقابل قبول ہیں،اگر کیس میں بنیادی حقوق متاثر ہونے کا معاملہ ہے تو سنیں گے ورنہ عدالت کا دائرہ کار نہیں بنتا، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون بنتے وقت پارلیمنٹ میں اپوزیشن اس کی مخالفت کرتی ہے،اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نیب قانون غلط ہے تو اسمبلی میں بل کیوں نہیں لاتے؟ قانون کا ڈھانچہ عدالت کے بجائے اسمبلی میں زیر بحث آنا چاہیے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آج جو حکومت آئی اس نے اپنے گناہ معاف کرا لیے اگلی آئے گی وہ اپنے کرا لے گی اگر عوام کے پیسے پر کرپشن کی گئی ہے تو یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی میں آتا ہے،آئین میں طے شدہ ضابطوں کے تحت قوانین کا جائزہ لے سکتے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب ایک حلقے کا منتخب نمائندہ مستعفی ہوتا ہے تو کیا وہ اپنی عوام سے اجازت لیتا ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ منتخب نمائندے سیاسی حکمت عملی اور فیصلوں کے تحت استعفے دیتے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر مستعفی ہونے سے پہلے عوام سے اجازت نہیں لیتے تو منتخب نمائندے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

خواتین کو تعلیم سے روکنا جہالت،گزشتہ 7ماہ سے انتشار کا کوئی واقعہ نہیں ہوا،طاہر اشرفی

کسی بھی مکتبہ فکر کو کافر نہیں قرار دیا جا سکتا ،علامہ طاہر اشرفی

امریکا اپنی ہزیمت کا ملبہ ڈالنا چاہتا ہے تو پاکستان اس کا مقابلہ کرے،علامہ طاہر اشرفی

وزیراعظم  نے مکہ میں دوران طواف 3 مرتبہ مجھے کیا کہا؟ طاہر اشرفی کا اہم انکشاف

تحریک انصاف نے نئی نیب ترامیم کوچیلنج کردیا

Leave a reply