” مجھے ڈر لگتا ہے ” .تحریر : زیاد علی شاہ

0
119

تمباکو کی پیداوار میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے کسان اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح یہ پیداوار بڑھائے اور منافع زیادہ سے زیادہ حاصل کریں کسان بیچارہ کیا کریں ان کی دو وقت کی روٹی اسی سے ہی پیدا ہوتی ہے لیکن ان کی کمائی کیلئے متبادل طریقے بھی موجود ہیں ایک دن میں ایک ریسرچ کے مطابق بارہ سو بچے سگریٹ پینا شروع کر دیتے ہیں اور خاطر حواہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ایک سروے کے مطابق پختونخوا میں پچاس فیصد تمباکو پیدا ہوتی ہے یعنی سب سے زیادہ وہاں ہوتی ہے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے مطابق روزانہ چار سو پچاس لوگ سگریٹ کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اتنی تمہید باندھنے کی ضرورت اسلئے پڑ گئی کہ "مجھے ڈر لگ گیا” کہ پاکستان کی آدھی آبادی تو سگریٹ کی وجہ سے متاثر ہو جائیگی پھر میں اسی کوشش میں تھا کہ سگریٹ کو ختم کرنے کیلئے کوئی عملی اقدام کئے جائے صحافت کے طالب علم ہونے کی وجہ سے گھومتا پھرتا ہوں ادھر ادھر دیکھتا ہوں مشاہدہ کرتا ہوں کہ اس کی اصل جڑ کیا ہے ؟ پھر معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اصل تو ہم ہی ہے میں ایک نوجوان ہو کر اس میں اپنا کردار کیسے ادا کرسکتا ہوں ؟

آج اللہ نے موقع دیا کرومیٹک کے زیر انتظام تمباکو کو روکنے کیلئے کانفرنس میں مدعو کیا گیا وہ لوگ اس پر بہت کام کر رہے ہیں مختلف ریسرچ کرتے ہیں یوتھ کو اپنے ساتھ اینگیج رکھتے ہیں اب یوتھ کیا کر سکتی ہے ؟ مختلف یونیورسٹیوں میں طلباء سگریٹ کو سٹائل کے طور پر پیتے ہیں بلکہ فخر کرتے ہیں پھر یہی طلباء پاکستانی ڈراموں کو دیکھتے ہیں تو ڈراموں میں بھی سگریٹ نوشی سٹائل کیلئے پیتے ہیں جو کہ طلباء پر برا اثر پڑتا ہے آج کل ” ہم نیوز ” پر ایک ڈرامہ نشر ہو رہا ہے اس کا نام ہے ” پری زاد ” اس میں مرکزی کردار سگریٹ نوشی محض ٹینشن کو دور کرنے کیلئے کرتا ہے تو نوجوان اس چیز کو کافی کرتی ہے اس پر حکومت بھی غیر سنجیدہ بلکہ خوش تماشائی بن کے بیٹھے ہیں اب اس یوتھ کو سگریٹ روکنے کیلئے بھی ہم استعمال کر سکتے ہیں نوجوان پاکستان کی طاقت ہے اور سوشل میڈیا کا پاکستانیوں پر بہت اثر ہوتا ہے اگر پاکستانی یوتھ نشے کے خلاف نکلے اور اس کا نام جہاد ہوگا کیونکہ سگریٹ (تمباکو) سے انسانوں کا قتل عام ہو رہا ہے ہم اس سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں ایک آواز بننا بہت ضروری ہے

کانفرنس میں مختلف بلاگرز نے اس کو روکنے کیلئے مختلف تجاویز دئے کہ کیسے اس کو روکا جا سکتا ہے لیکن میں اپنی بات کرونگا میں نے کچھ تجاویز پیش کی کہ طلباء کو اٹھا لینگے کہ سگریٹ روکنے کیلئے کردار ادا کریں قیامت کے دن ہم سے یہی پوچھا جائیگا کہ دنیا میں جو کر سکتے تھے وہ کیوں نہیں کیا دوسری تجویز یہی تھی کہ پختونخوا میں تمباکو کثیر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں تو میں بذات خود گھر گھر گلی گلی جاؤنگا اس کو روکنے کیلئے بلکہ اپنے گھر سے شروع کرونگا تیسری تجویز یہی تھی کہ ہماری یوتھ کی آواز بہت توانا ہے اور اتنی طاقتور ہے کہ وہ چاہے کچھ بھی کرسکتے ہیں کیوں نہ ہم اس پر کمپینز کریں اور لوگوں کو اس بات پر یقین دلائے کہ یہ ایک خاص پلان کے تحت ہو رہا ہے اور اس میں ہمارے دشمن بڑھ چھڑ کر حصہ لے رہے ہیں اور ہم پاکستانی اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں ہم اپنا آواز خود ہی بلند کرینگے

سگریٹ کا مسلہ صرف یونیورسٹیوں تک محدود نہیں بلکہ فیکٹریوں میں بھی بہت کثیر تعداد میں مزدور سگریٹ نوشی کرتے ہیں یوتھ جا کر اگر ان شہریوں کو ان کی نقصانات گننا شروع کرینگے اور ان کو اس بات کی یقین دلائنگے کہ یہ ہمارے ملک و صحت دونوں کیلئے نقصان دہ ہے شاید وہ ہمارے بات کا یقین کر لیں بد قسمتی سے یہاں حکومت کچھ مافیاز کے سامنے جھک جاتی ہے گھٹنے ٹیک دیتی ہے محض کچھ مفادات کی خاطر اور انہی سگریٹ انڈسٹریز کے جانب سے ان کو ڈونیشن کی شکل میں رشوت ملتی ہے تاکہ ان کے کاروبار پر کوئی اثر نہ پڑ جائے ہر چیز پر اس حکومت نے ٹیکس بڑھائی لیکن سگریٹ پر نہیں

نوجوان اس ملک کا اثاثہ ہے اگر چاہے تو سگریٹ کا صفایا بھی اس ملک سے کر سکتی ہے ایک شاعر بہت خوب فرماتے ہیں

بخت کے تخت سے یکلخت اتارا ہوا شخص
آپ نے دیکھا ہے کھبی جیت کے ہارا ہوا شخص

نوجوان اس ملک میں ان مافیاز کی جیت کو ہار میں بدل سکتی ہے اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو

Leave a reply