کم سن بچوں سے زیادتی کرنے والا مجرم اور سزا تحریر :سفیر اقبال

0
54

کم سن بچوں سے زیادتی کرنے والا مجرم اور سزا
تحریر :سفیر اقبال

نہایت افسوس کی بات ہے کہ عرصہ ہائے دراز سے سب کے سامنے تسلسل کے ساتھ جرم ہو رہا ہے لیکن ریاست مدینہ کے دعویدار نہ تو اس کی روک تھام کے لئے کوئی ایکشن لے رہے ہیں اور نہ ہی جرم کرنے والوں کو سزائیں مل رہی ہیں. ہر گزرتے دن کے ساتھ جرم میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے لیکن "زمین جنبد نہ جنبد گل محمد” والی صورتحال بن چکی ہے.

ریاست اس قدر سنگین جرم پر کوئی قانون کیوں نہیں بنا رہی میرے خیال میں اس کی دو بڑی اہم وجوہات ہیں جو میں قارئین کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتا ہوں.

پہلے یہ سمجھ لیں کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ضرور ہے لیکن فی الحال یہ خلافت نہیں. اس وجہ سے یہاں چوری کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا…. شادی شدہ زانی کو سنگسار نہیں کیا جاتا. اور نماز نہ پڑھنے والے کو مسلمانوں کے قبرستان سے دور دفن نہیں کیا جاتا. جب خلافت ہو گی تو ان شا اللہ یہ سارے کام کیے جائیں گے. لیکن فی الحال چونکہ ریاست عالمی دباؤ کے زیر اثر ہوتی ہے اس لیے حدود والی سزا میں کمی کر کے تعزیر جاری کر سکتی ہے تا کہ عالمی دباؤ اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ دونوں سے بچا جا سکے.

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک کلاس میں استاد کسی بچے کو اس کی کسی اخلاقی غلطی یا ذہنی سستی کی بنیاد پر ہلکی پھلکی سزا خود تجویز کرتا ہے یہ بات سامنے رکھتے ہوئے کہ بچے کے والدین کو بھی اس سزا پر اعتراض نہ ہو اور سکول کے پرنسپل کو بھی.

اب آتے ہیں ان دو وجوہات کی طرف جن کی وجہ سے ریاست ابھی تک اس سنگین جرم کے خلاف سزا کے لیے مجرم کو چند دن سلاخوں کے پیچھے کھڑا کر کے اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کے علاوہ کوئی قانون نہیں بنا سکی.

پہلی وجہ یہ ہے کہ ہماری عوام میں مشترکہ طور پر اسلام کی قائم کردہ سزاؤں یا تعزیرات کے متعلق مکمل آگہی نہیں. ریاستی قوانین اور شرعی قوانین کے درمیان فرق نہیں معلوم اور ستم بالائے ستم ہمارے وزرا جن کو کام کچھ اور دیا جاتا ہے لیکن وہ اپنی انگلیاں کہیں اور پھنسانے کا شوق رکھتے ہیں اس موضوع پر جدت، روشن خیالی کے نام پر گمراہ کن فلسفے جھاڑتے رہتے ہیں اور عوام میں بے یقینی والی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں.

سب سے پہلے ایسے” روشن خیال ” لوگوں کی طرف سے سزا کو وحشیانہ فعل قرار دیا جاتا ہے اور اس کے بعد یہ فرمایا جاتا ہے کہ مہذب قومیں ایسا ماحول قائم کرتی ہیں کہ جرم کیا ہی نہ جا سکے. (بات بہت خوبصورت ہے لیکن زمینی حقائق یہی بتاتے ہیں کہ دو سال ہونے والے ہیں اور ابھی تک ایسا ماحول نہیں بن سکا کہ جس میں رہتے ہوئے جرم کرنے کا موقع نہ ملے ). جہاں تک تعلق ہے سزا کے وحشیانہ فعل ہونے کا تو مسلمان ہونے کے ناطے یہ ایمان ہونا چاہیے کہ سزا مقرر کرنے والے اللہ کے نبی اور صحابہ کرام وحشی نہیں تھے اور انہوں نے جرم سے پاک معاشرے والا ماحول اسی وقت دیا جب وہ عوام الناس کے سامنے چند مجرموں کو ان کے جرم کی سزا دے چکے.

بہرحال انسان ہونے کے ناطے سے بھی دیکھیں تو یہی سمجھ آتی ہے کہ کسی کو نصیحت کرنے کا فائدہ اپنی جگہ پر ہے لیکن جرائم روکنے کے لیے نصیحت کی بجائے سزا کا خوف زیادہ موثر ہے اور اگر ایک جرم کے بدلے میں سب کے سامنے مجرم کو سزا مل جائے تو کافی لوگ اس جرم سے توبہ کر لیتے ہیں اور مجرم بھی گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے. اس وال پر ان شا اللہ سلسلہ وار ساری اسلامی سزاؤں کی انسانی قوانین کی روشنی میں افادیت پر موقف پیش کروں گا لیکن فی الحال موجودہ ٹاپک کے لحاظ سے دیکھتے ہیں کہ کسی معصوم بچے کے ساتھ بدفعلی کر کے اسے قتل کر دینے کے جرم کی سزا دینا کسی بھی عالمی قانون یا عالمی مذہب کی روشنی میں مناسب عمل ہے کہ وحشیانہ فعل ہے….!

زنا یا لواطت خود ایک بہت بڑا جرم ہے اور کسی بھی معاشرے میں پسندیدہ نہیں لیکن زنا بالجبر جسے عالمی ڈکشنری میں ریپ کہا جاتا ہے انتہائی گھناؤنا جرم ہے اور ریپ کے بعد قتل اس سے بھی زیادہ سنگین. مقتول بچے کے والدین چاہے مسلم ہوں یا غیر مسلم اس قاتل کے لیے دل میں جذبہ انتقام پالتے ہیں اور یہ انتقام اسے قتل کرنے یا اس قاتل کے بچوں کے ساتھ بدفعلی کرنے کی صورت میں مکمل ہوتا ہے.

تو کیا ہی اچھا ہو کہ ریاست خود ہی اس قاتل کو اپنے انجام تک پہنچا دے یا کم از کم اس کے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کر دے تا کہ اس کے جرم کی سزا اس کے بچوں کو نہ ملے. (کچھ دن قبل ایک خبر سنی تھی کہ ایسے مجرم کو سزا کے طور پر اس کی جنسی صلاحیت کو ختم کرنے کی تجویز زیر غور ہے لیکن ابھی تک کسی مجرم کو یہ سزا ہوئی ہے…. سننے میں نہیں آیا ). مان لیا کہ موجودہ صورتحال میں میرا جسم میری مرضی والوں کا ریاست پر بہت دباؤ ہو گا… اسی طرح باقی این جی اوز اور امریکی حکومت کا بھی دباؤ موجود ہو گا کسی حد تک…. لیکن کم از کم اس جرم پر نہیں کیوں کہ یہ جرم ہر مذہب اور ہر عالمی قانون کی نظر میں جرم ہی ہے.

عین ممکن ہے کہ ایک سزا کے بعد عالمی پریشر میں اضافہ ہو جائے اور اس "قدامت پسندی اور وحشیانہ فعل” پر عالمی سطح پر مذمت کی جائے لیکن حالات و واقعات کی سنگینی کی احساس دلا کر یہ دباؤ کم کیا جا سکتا ہے. پچھلے چند سالوں میں موجودہ حکومت کے پاس مقتول بچوں کی لاشوں کی اتنی تصاویر تو جمع ہو ہی چکی ہیں جنہیں دکھا کر روشن خیال اور جدت پسند نام نہاد آقاؤں کا منہ بند کروایا جا سکے .

اب دوسری وجہ ڈسکس کرتے ہیں اور یہ وجہ پہلی سے زیادہ بھیانک اور زیادہ مشکل بیان ہے. بس اتنا سمجھ لیجیے کہ جس ملک میں پارلیمنٹ سے بازارِ حسن تک جیسی کتابیں سرعام چھپتی اور بکتی ہوں…. جہاں ہیلی کاپٹر کے ذریعے سیاستدان عورتوں کی ننگی تصاویر پاکستان کے گلی کوچوں میں پھینکی جاتی ہوں…. جہاں ٹک ٹاک فاحشہ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ کر سلیفیاں بنواتی ہو اور اس سنگین کیس کو بغیر کسی اعلان کے ہلکی سی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد کلوذ کر دیا جاتا ہو اور جہاں کے پارلیمنٹ ارکان پانچ چھ وزارتیں کرنے کے بعد بھی کنوارے رہنا پسند کرتے ہوں ان سے بھلا ایسے قوانین یا تعزیرات کی امید رکھنا کہاں کی عقل مندی ہے…. ؟

اس تحریر کو بیشک اپنے نام سے یا بغیر نام سے کاپی پیسٹ اور شئیر کریں. یا اپنے الفاط اور اپنے انداز میں سوشل میڈیا پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں لیکن گزارش ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور کریں. اور اس وقت تک آواز اٹھاتے رہیں جب تک کوئی موثر قانون قومی اسمبلی سے پاس ہو کر نہیں آ جاتا اور ان سنگین جرائم میں ملوث افراد کو سزا نہیں مل جاتی.

ورنہ یقین کریں اگر سزا دینا جرم کو روکتا ہے تو سزا نہ دینا نہ صرف مجرم کے حوصلوں میں اضافہ کرتا ہے بلکہ عام انسان کو بھی جرم کرنے کی ترغیب دیتا ہے. جرائم کی جو آگ آپ کے شہر اور آپ کے گلی محلے میں لگ چکی ہے اگر اس پر سزا کا پانی ڈال کر ٹھنڈا نہ کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب اللہ نہ کرے آپ کا گھر اور آپ کے بچے بھی اس آگ سے محفوظ نہیں ہوں گے.
#رنگِ_سفیر

Leave a reply