چلاس دیامر استور ڈویژن کا دارالخلافہ ہے یہاں کی ابادی تقریبا ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہیں ۔چلاس میں قراقرم یونیورسٹی کا ایک سب کمپس ایک لڑکوں کے ڈگری کالج ایک خواتین کی کالج کے علاوہ تین لڑکوں کے اور ایک لڑکیوں کی ہائی سکول ہے۔ آج ہم قلعہ چلاس پہ بات کرتے ہیں ۔یہ قلعہ چلاس کے مرکزی بازار میں موجود ہے اج کل یہ قلعہ پولیس کے ذیر استمال ہے۔

1852 کو مہاراجہ گلاب سنگھ نے کرنل لوچن سنگھ کو چلاس میں تعنات کیا ۔یہ فوجی دستہ چلاس پہنچا تو چلاس کے لوگ اس قلعہ کے اندر گھس گٸے،اس قلعہ پر باہر سے حملہ کرنا بہت مشکل تھا۔یہ قعلہ چلاس کی ایک ایسی جگہ پر بنایا گیا جہاں سے پوری چلاس نشانے پہ ہے۔لیکن فوج ڈوگرہ نے اس کا محاصرہ کرلیا اور مورچے تیار کرکے لڑاٸی شروع کردی،محاصرین نے بڑی بہادری سے مقابلہ کرلیا،قلعے کی فصیل سے پتھرو اور گولیوں کی ایسی بارش کردی ڈوگرہ فوج کو قلعہ تک پہنچنے تک بڑی سختی اُٹھانی پڑی اس لڑاٸی میں ڈوگرہ فوج کی ڈیڈھ ہزار سپاہی مجروح و مقتول ہوٸے،آخر کوٸی راستہ نہی ملا تو ڈوگرہ فوج نے اندر موجود پانی کے ہوز کو نقب کے زریعہ خالی کیا لیکن اندر موجود بہادر لوگوں نے تین دن تک پانی کی پرواہ نہی کی،اور روغن پیتے رہے بلا آخر پیاس کی وجہ مجبور ہوکر قلعہ کا دروازہ کھول کر بھاگنے لگے،کافی لوگ اس معرکہ میں شہید ہوٸے بعض کو قیدی بنادیاگیا،اور قلعہ کو آگ لگا کر فنا کر دیا کیا گیا۔

1892 کو جو ریاست کشمیر کا یہاں عہدیدار تعنات تھا چلاس کے لوگوں نے اُس کو بھگا دیا جو کندھے پر گولی کھاکر گلگت پہنچ گیا۔اور نومبر 1892 کو ڈاکٹر رابٹسن پھر سے چلاس پر حملہ آور ہوکر چلاس کو فتح کیا اور حکومت قاٸم کیا گیا،کافی عرصہ ڈوگرہ حکومت چلنے کے بعد 1893.94کو اس قلعہ کو دوبارہ جدید طریقے سے تعمیر کیا گیا۔اور اس میں باقاعدہ ڈوگرہ فوج تعنات کردی،اور 1935 میں روسی فوج کی خطرے کی پیش نظر برٹش گورنمنٹ نے گلگت کے محلقہ علاقہ جات اور چلاس کا انتظام براہ راست اپنے ہاتھ میں لیکر گلگت میں پولیٹیکل ایجنٹ اور چلاس میں ایسسٹنٹ ایجنٹ مقرر کٸے اور اس کی مدد کیلٸے گلگت سکاوٹس فورس کا قیام عمل میں لاٸی،اور یہ ڈوگرہ فوج کی جگہ تعینات رہی، یہ قلعہ سکاوٹس کا ملکیت تصور ہونے لگا،اور 1971 کے جنگ کے بعد سکاوٹس کو عملی جامہ دیا گیا،اور سکاوٹس کو این ایل ای کا نام دیکر 1974 کو بونجی منتقل کیا گیا۔اور یہ قلعہ خالی ہوا تو پولیس محکمے کی درخواست پر فروخت کیا جس کی قیمت 3لاکھ گیارہ ہزار روپے رہی اور آج یہ قلعہ دیامر پولیس لاٸن کے شکل میں موجود ہے۔

اگر اس قلعہ کو پولیس سے خالی کروا کے محکہ ٹوریزم کے حوالےکیا جائے تو اس سے ایک بہترین سیاحتی مقام بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے بارہا کوشش رہی ہے کہ اس تاریخی ورثہ کو پولیس کے محکمہ سے اٹھا کے عوام کے لے اوپن کیا جائے تاکہ التت بلتت فورٹ ہنزہ کے طرح اس کو بھی سیاحت کے لے لے استمال کیا جائے اور اس حاصل ہونے والے امدن سے علاقے کے ترقی کے استمال کیا جاسکے گا۔

Shares: