پاکستان:میوزک انڈسٹری اپنے زوال کی طرف رواں دواں،فہد شیروانی کا میوزک انڈسٹری سے متعلق اہم بلاگ
لاہور :پاکستان میں میوزک انڈسٹری زوال کی طرف رواں دواں جدید میوزک کے ساتھ کلاسیکل موسیقی بھی دم توڑنے لگی.شاید اس کی وجہ جدید ٹیکنالوجی ہے یا پھر عوام الناس کی عدم دلچسپی اور یا پھر معاشی مسائل .بہر کیف یہ ماننا ہی پڑے گا کہ میوزک انڈسٹری کو شاید اب کوئی سہارا نہ مل سکے.ویسے بھی یہ بات ایک محاورے کے طور پر استعمال ہونے لگی ہے کہ انسان خوش ہو، غمزدہ ہو، پریشان ہو یا پھر جشن منانا چاہتا ہو ایک چیز ایسی ہے جو ہر حالت میں اس کا ساتھ دیتی ہے اور وہ ہے موسیقی۔ روح کی غذا کہلائی جانے والی موسیقی انسان کے موڈ اور مرضی کے مطابق اسے میسر ہوتی ہے۔ موسیقی انسان کی طبعیت پر خوشگوار اثرات چھوڑتی ہے اور اس کا موڈ بدلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
پاکستان میں موسیقی کا شمار بھی اس انڈسٹری میں ہوتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زوال کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ ماضی پر نظر ڈالیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ میوزک انڈسٹری نے پاکستان میں بہت سنہرا دور دیکھا۔ اس سنہرے دور میں پاکستان نے لازوال اور صدیوں یاد رہ جانے والے لازوال گیت تخلیق کئے۔ ساتھ ساتھ بے شمار میوزک ڈائریکٹرز، گیت کار اور گلوکار بھی پیدا ہوئے جنہوں نے انمٹ گیت تخلیق کئے۔ پاکستان کی میوزک انڈسٹری کا ماضی مایا ناز موسیقار، گلوکار اور گیت کاروں سے بھرا پڑا ہے۔ جن کی بنائی ہوئی دُھنیں، جن کے گائے ہوئے گانے اور جن کے لکھے گئے الفاظ آج بھی دل میں چاشنی بھر دیتے ہیں۔پاکستان کی میوزک انڈسٹری نے مہدی حسن، احمد رشدی، اے نیّر، نور جہاں ، رونا لیلیٰ ، ناہید اختر جیسے کانوں میں رس بھرتے سریلے گلوکار، نثار بزمی ، ماسٹر عنائت ، ماسٹر عبداللہ، بخشی وزیر ،طافو خاں جیسے سُر لے اور تال کا حق ادا کرنے والے موسیقار اور احمد راہی ، خواجہ پرویز جیسے موتی اگلتے گیت کار پیدا کئے جنہوں نے نہ صرف خطے میں بلکہ دنیا میں ایک نام اور مقام پیدا کیا۔ قوالی کو جلا بخشنے والے اور اسے پوری دنیا میں متعارف کرانے والے استاد نصرت فتح علی خان پاکستان کی میوزک انڈسڑی کا وہ ستارہ ہیں جس کی روشنی سے آج بھی دنیا بھر کےلوگ فیضیاب ہو رہے ہیں۔ دنیا کی کئی یونیورسٹیوں میں استاد نصرت فتح علی خان کے نام سے نہ صرف ڈیپارٹمنٹ ہیں بلکہ ان پر پی ایچ ڈی بھی کرائی جا رہی ہے۔
پاکستان میں میوزک انڈسٹری کے زوال کا سب سے بڑا سبب پاکستان میں فلم انڈسٹری کی زبوں حالی ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان فلم انڈسٹری نے کافی فلمز بنائی ہیں اور یہ فلمز بڑے بڑے پوڈیوسر اور ٹی وی چینلز نے مل کر بنائیں۔لیکن اس کے باوجود وہ کوئی ایک ایسا گانا تخلیق کرنے میں ناکام رہے جس کو عوام میں پذیرائی حاصل ہوئی ہو یا زبان ذدعام ہوا ہو۔ میوزک کو فلم کی کامیابی کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے پاکستان فلموں کی ناکامی کی ایک اہم وجہ میوزک کا اچھا نہ ہونا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ پاکستان کی موجودہ فلم انڈسٹری کوئی ایک گانا ایسا نہ دے سکی جس نے شائقین کے دل میں گھر کیا ہو۔
میوزک کو زندہ رکھنے کا کام میوزک بینڈز یا سولو سنگرز کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں گنتی کے چند بینڈز یا سنگرز کے علاوہ سب اس سلسلہ میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کے زیادہ تر سنگرز بس ایک یا دو ہٹ گانے دینے کے بعد رک سے جاتے ہیں اور وہ اپنے انہی چند ہٹ گانوں کو ہر جگہ پرفارم کرتے ہیں۔ انہی چند گانوں کو بار بار سننے کی وجہ سے شائقین میں وہ سنگرز اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ نئے، اچھے اور عمدہ گانوں کے میسر نہ ہونے کے سبب پاکستان میں میوزک کنسرٹ بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں اور لوگوں کا رحجان پاکستانی میوزک سے ہٹتا دکھائی دے رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں میوزک کمپنیاں بھی اپنا وجود کھو بیٹھی ہیں اور میوزک چینلز بھی بند ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہی ہو گئے ہیں۔
موسیقارو شاعر مبشر حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں میوزک انڈسٹری کے زوال کا سبب نئے گلوکاروں کا گائیکی کو سمجھے اور سیکھے بغیر اس فیلڈ میں آنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میوزک ایک ایسا شعبہ ہے جس میں سیکھنا اور پریکٹس کرنا لازم و ملزوم ہے بغیر سیکھے گانا گا لینا ایسے ہی ہے جیسے کسی ایسے بندے کو گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دینا جس کو ڈرائیونگ نہ آتی ہو، جس کا نتیجہ حادثے کی صورت میں نکلتا ہے۔ مبشر حسن کے بقول پاکستان کی میوزک انڈسڑی کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ یہ اناڑیوں کے ہاتھ لگ گئی جس کے باعث آج پاکستان کی میوزک انڈسٹری زوال کا شکار ہے۔ سولو سنگرز میں ساحر علی بگا، آئمہ بیگ، بلال سعید، عاصم اظہر اور فلک شبیر وہ چندنام ہیں جنہوں نے پاکستان میں میوزک انڈسٹری کو بہرحال کسی نہ کسی طرح سے بچا کرکھا ہوا ہے۔ خصوصا ساحر علی بگا، بلال سعید اور عاصم اظہر کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ان کے ہر نئے آنے والے گانے کو پاکستان اور پاکستان سے باہر ملنے والی پذیرائی انتہائی قابل تحسین ہے۔ نوجوانوں میں ساحرعلی بگا، بلال سعید اور عاصم اظہر کے گانوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ان کی ڈیمانڈ پاکستان میوزک انڈسٹری کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
میوزک انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے افراد اور کمیونٹی کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کی کلچرل منسٹری کو بھی اس شعبے کی ترقی کی طرف توجہ دینی چاہئیے اور ملک کے انسٹیٹوٹس میں اس کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اس کو باقاعدہ سکھایا جائے جیسے دنیا کے مختلف ممالک میں کیا جا رہا ہے۔