یوم وفات مضطر خیر آبادی

0
56

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں

مضطر خیر آبادی کا اصل نام سید محمد افتخار حسین جبکہ مضطر تخلص تھا – ’اعتبار الملک‘ ، ’اقتدار جنگ بہادر‘ خطاب ملے، 1865ء میں خیرآباد(یوپی) بھارت میں پیدا ہوئے۔ مولانا فضل حق خیرآبادی کے نواسے اور شمس العلماء عبدالحق خیرآبادی کے بھانجے تھے۔

محمد حسین ، بسمل(بڑے بھائی) اور امیر مینائی سے تلمذ حاصل تھا۔ مضطر ریاست ٹونک کے درباری شاعر تھے۔ ان کا دیوان چھپا نہیں۔ جاں نثاراختران کے فرزند رشید تھے20 مارچ1927ء کوگوالیارمیں انتقال کرگئے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:241

منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔
وقت دو مجھ پر کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد

مصیبت اور لمبی زندگانی
بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں

مرے گناہ زیادہ ہیں یا تری رحمت
کریم تو ہی بتا دے حساب کر کے مجھے

علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
تم اچھا کر نہیں سکتے میں اچھا ہو نہیں سکتا

بوسے اپنے عارض گلفام کے
لا مجھے دے دے ترے کس کام کے

برا ہوں میں جو کسی کی برائیوں میں نہیں
بھلے ہو تم جو کسی کا بھلا نہیں کرتے

لڑائی ہے تو اچھا رات بھر یوں ہی بسر کر لو
ہم اپنا منہ ادھر کر لیں تم اپنا منہ ادھر کر لو

اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے
کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے

وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں
آج کل گرمیاں ہیں جاڑوں میں

اک ہم ہیں کہ ہم نے تمہیں معشوق بنایا
اک تم ہو کہ تم نے ہمیں رکھا نہ کہیں کا

اگر تقدیر سیدھی ہے تو خود ہو جاؤ گے سیدھے
خفا بیٹھے رہو تم کو منانے کون آتا ہے

ہمارے ایک دل کو ان کی دو زلفوں نے گھیرا ہے
یہ کہتی ہے کہ میرا ہے وہ کہتی ہے کہ میرا ہے

مرے دل نے جھٹکے اٹھائے ہیں کتنے یہ تم اپنی زلفوں کے بالوں سے پوچھو
کلیجے کی چوٹوں کو میں کیا بتاؤں یہ چھاتی پہ لہرانے والوں سے پوچھو

ان کا اک پتلا سا خنجر ان کا اک نازک سا ہاتھ
وہ تو یہ کہیے مری گردن خوشی میں کٹ گئی

آنکھیں نہ چراؤ دل میں رہ کر
چوری نہ کرو خدا کے گھر میں

ایسی قسمت کہاں کہ جام آتا
بوئے مے بھی ادھر نہیں آئی

یاد کرنا ہی ہم کو یاد رہا
بھول جانا بھی تم نہیں بھولے

مدہوش ہی رہا میں جہان خراب میں
گوندھی گئی تھی کیا مری مٹی شراب میں

ان کو آتی تھی نیند اور مجھ کو
اپنا قصہ تمام کرنا تھا

دم خواب راحت بلایا انہوں نے تو درد نہاں کی کہانی کہوں گا
مرا حال لکھنے کے قابل نہیں ہے اگر مل گئے تو زبانی کہوں گا

اے عشق کہیں لے چل یہ دیر و حرم چھوٹیں
ان دونوں مکانوں میں جھگڑا نظر آتا ہے

آئنہ دیکھ کر غرور فضول
بات وہ کر جو دوسرا نہ کرے

جو پوچھا منہ دکھانے آپ کب چلمن سے نکلیں گے
تو بولے آپ جس دن حشر میں مدفن سے نکلیں گے

محبت میں کسی نے سر پٹکنے کا سبب پوچھا
تو کہہ دوں گا کہ اپنی مشکلیں آسان کرتا ہوں

وقت آرام کا نہیں ملتا
کام بھی کام کا نہیں ملتا

صبح تک کون جئے گا شب تنہائی میں
دل ناداں تجھے امید سحر ہے بھی تو کیا

ایک ہم ہیں کہ جہاں جائیں برے کہلائیں
ایک وہ ہیں کہ جہاں جائیں وہیں اچھے ہیں

وہ شاید ہم سے اب ترک تعلق کرنے والے ہیں
ہمارے دل پہ کچھ افسردگی سی چھائی جاتی ہے

زلف کو کیوں جکڑ کے باندھا ہے
اس نے بوسہ لیا تھا گال کا کیا

اے بتو رنج کے ساتھی ہو نہ آرام کے تم
کام ہی جب نہیں آتے ہو تو کس کام کے تم

بازو پہ رکھ کے سر جو وہ کل رات سو گیا
آرام یہ ملا کہ مرا ہات سو گیا

عدو کو چھوڑ دو پھر جان بھی مانگو تو حاضر ہے
تم ایسا کر نہیں سکتے تو ایسا ہو نہیں سکتا

اکٹھے کر کے تیری دوسری تصویر کھینچوں گا
وہ سب جلوے جو چھن چھن کر تری چلمن سے نکلیں گے

جگانے چٹکیاں لینے ستانے کون آتا ہے
یہ چھپ کر خواب میں اللہ جانے کون آتا ہے

حال دل اغیار سے کہنا پڑا
گل کا قصہ خار سے کہنا پڑا

میرے اشکوں کی روانی کو روانی تو کہو
خیر تم خون نہ سمجھو اسے پانی تو کہو

اپنی محفل میں رقیبوں کو بلایا اس نے
ان میں بھی خاص انہیں جن کی ضرورت دیکھی

عمر سب ذوق تماشا میں گزاری لیکن
آج تک یہ نہ کھلا کس کے طلب گار ہیں ہم

حال اس نے ہمارا پوچھا ہے
پوچھنا اب ہمارے حال کا کیا

میں مسیحا اسے سمجھتا ہوں
جو مرے درد کی دوا نہ کرے

تصور میں ترا در اپنے سر تک کھینچ لیتا ہوں
ستم گر میں نہیں چلتا تری دیوار چلتی ہے

انھوں نے کیا نہ کیا اور کیا نہیں کرتے
ہزار کچھ ہو مگر اک وفا نہیں کرتے

تم اگر چاہو تو مٹی سے ابھی پیدا ہوں پھول
میں اگر مانگوں تو دریا بھی نہ دے پانی مجھے

اٹھے اٹھ کر چلے چل کر تھمے تھم کر کہا ہوگا
میں کیوں جاؤں بہت ہیں ان کی حالت دیکھنے والے

آؤ تو میرے آئنۂ دل کے سامنے
ایسا حسیں دکھاؤں کہ ایسا نہ ہو کہیں

ہم سے اچھا نہیں ملنے کا اگر تم چاہو
تم سے اچھے ابھی ملتے ہیں اگر ہم چاہیں

ان بتوں کی ہی محبت سے خدا ملتا ہے
کافروں کو جو نہ چاہے وہ مسلمان نہیں

جفا سے انہوں نے دیا دل پہ داغ
مکمل وفا کی سند ہو گئی

حسرتوں کو کوئی کہاں رکھے
دل کے اندر قیام ہے تیرا

دل کو میں اپنے پاس کیوں رکھوں
تو ہی لے جا اگر یہ تیرا ہے

بچھڑنا بھی تمہارا جیتے جی کی موت ہے گویا
اسے کیا خاک لطف زندگی جس سے جدا تم ہو

پردے والے بھی کہیں آتے ہیں گھر سے باہر
اب جو آ بیٹھے ہو تم دل میں تو بیٹھے رہنا

اک صدمۂ محبت اک صدمۂ جدائی
گنتی کے دو ہیں لیکن لاکھوں کی جان پر ہیں

تڑپ ہی تڑپ رہ گئی صرف باقی
یہ کیا لے لیا میرے پہلو سے تو نے

اے حنا رنگ محبت تو ہے مجھ میں بھی نہاں
تیرے دھوکے میں کوئی پیس نہ ڈالے مجھ کو

زباں قاصد کی مضطرؔ کاٹ لی جب ان کو خط بھیجا
کہ آخر آدمی ہے تذکرہ شاید کہیں کر دے

میرا رنگ روپ بگڑ گیا مرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں

فنا کے بعد اس دنیا میں کچھ باقی نہیں رہتا
فقط اک نام اچھا یا برا مشہور رہتا ہے

جب میں نے کہا دل مرا پامال کیا کیوں
کس ناز سے بولے کہ محبت کی سزا تھی

دل کیا کرے جو راز محبت کا کھل گیا
میں کیا کروں کہ عشق ہی اک نامور سے ہے

عشق کا کانٹا ہمارے دل میں یہ کہہ کر چبھا
اب نکلواؤ تو تم ان سے نکلوانا مجھے

آپ سے مجھ کو محبت جو نہیں ہے نہ سہی
اور بقول آپ کے ہونے کو اگر ہے بھی تو کیا

ساقی نے لگی دل کی اس طرح بجھا دی تھی
اک بوند چھڑک دی تھی اک بوند چکھا دی تھی

خط پھاڑ کے پھینکا ہے تو لکھا بھی مٹا دو
کاغذ پہ اترتا ہے بہت تاؤ تمہارا

احباب و اقارب کے برتاؤ کوئی دیکھے
اول تو مجھے گاڑھا اوپر سے دباتے ہیں

کچھ تمہیں تو ایک دنیا میں نہیں
اور بھی ہیں سیکڑوں اس نام کے

تیری رحمت کا نام سن سن کر
مبتلا ہو گیا گناہوں میں

اس سے کہہ دو کہ وہ جفا نہ کرے
کہیں مجھ سا اسے خدا نہ کرے

باقی کی محبت میں دل صاف ہوا اتنا
جب سر کو جھکاتا ہوں شیشہ نظر آتا ہے

کوئی لے لے تو دل دینے کو میں تیار بیٹھا ہوں
کوئی مانگے تو اپنی جان تک قربان کرتا ہوں

ہزاروں حسن والے اس زمیں میں دفن ہیں مضطرؔ
قیامت ہوگی جب یہ سب کے سب مدفن سے نکلیں گے

سنو گے حال جو میرا تو داد کیا دو گے
یہی کہو گے کہ جھوٹا ہے تو زمانے کا

جناب خضر راہ عشق میں لڑنے سے کیا حاصل
میں اپنا راستہ لے لوں تم اپنا راستہ لے لو

چوکی نظر جو زاہد خانہ خراب کی
توبہ اڑا کے لے گئی بوتل شراب کی

کوئی اچھا نظر آ جائے تو اک بات بھی ہے
یوں تو پردے میں سبھی پردہ نشیں اچھے ہیں

جیے جاتے ہیں پستی میں ترے سارے جہاں والے
کبھی نیچے بھی نظریں ڈال اونچے آسماں والے

دل کام کا نہیں تو نہ لو جان نذر ہے
اتنی ذرا سی بات پہ جھگڑا نہ چاہئے

میری ارمان بھری آنکھ کی تاثیر ہے یہ
جس کو میں پیار سے دیکھوں گا وہی تو ہوگا

نہیں منظور جب ملنا تو وعدے کی ضرورت کیا
یہ تم کو جھوٹی موٹی عادت اقرار کیسی ہے

دم نکل جائے گا رخصت کا ابھی نام نہ لو
تم جو اٹھے تو بٹھا دوں گا عزاداروں میں

اس کا بھی ایک وقت ہے آنے دو موت کو
مضطرؔ خدا کی یاد ابھی کیوں کرے کوئی

پہلے ہم میں تھے اور اب ہم سے جدا رہتے ہیں
آپ کاہے کو غریبوں سے خفا رہتے ہیں

محبت قدرداں ہوتی تو پھر کاہے کا رونا تھا
ہمیں بھی تم سمجھتے تم کو جیسا ہم سمجھتے ہیں

وہ مذاق عشق ہی کیا کہ جو ایک ہی طرف ہو
مری جاں مزا تو جب ہے کہ تجھے بھی کل نہ آئے

حسینوں پر نہیں مرتا میں اس حسرت میں مرتا ہوں
کہ ایسے ایسے لوگوں کے لیے ظالم قضا کیوں ہے

اپنے دل کو تری آنکھوں پہ فدا کرتا ہوں
آج بیمار پہ بیمار کی قربانی ہے

طریق یاد ہے پہلے سے دل لگانے کا
اسی کا میں بھی ہوں مجنوں تھا جس گھرانے کا

خواہش دید پہ انکار سے آتے ہیں مزے
ایسے موقعے پہ تو پردہ بھی مزا دیتا ہے

خوب اس دل پہ تری آنکھ نے ڈورے ڈالے
خوب کاجل نے تری آنکھ میں ڈورا کھینچا

تو نہ آئے گا تو ہو جائیں گی خوشیاں سب خاک
عید کا چاند بھی خالی کا مہینہ ہوگا

میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں

تیری الجھی ہوئی باتوں سے مرا دل الجھا
تیرے بکھرے ہوئے بالوں نے پریشان کیا

کہہ دو ساقی سے کہ پیاسا نہ نکالے مجھ کو
عمر بھر روئیں گے مٹی کے پیالے مجھ کو

دیکھ کر کعبے کو خالی میں یہ کہہ کر آ گیا
ایسے گھر کو کیا کروں گا جس کے اندر تو نہیں

تمنا اک طرح کی جان ہے جو مرتے دم نکلے
جدائی اک طرح کی موت ہے جو جیتے جی آئے

چاہت کی تمنا سے کوئی آنچ نہ آئی
یہ آگ مرے دل میں بڑے ڈھب سے لگی ہے

کوچۂ یار سے یا رب نہ اٹھانا ہم کو
اس برے حال میں بھی ہم تو یہیں اچھے ہیں

کیسے دل لگتا حرم میں دور پیمانہ نہ تھا
اس لیے پھر آئے کعبے سے کہ مے خانہ نہ تھا

وہاں جا کر کیے ہیں میں نے سجدے اپنی ہستی کو
جہاں بندہ پہنچ کر خود خدا معلوم ہوتا ہے

نہیں ہوں میں تو تری بندگی کے کیا معنی
نہیں ہے تو تو خدا کون ہے زمانے کا

کسی کے درد محبت نے عمر بھر کے لیے
خدا سے مانگ لیا انتخاب کر کے مجھے

لطف قربت ہے مے پرستی میں
میں خدا دیکھتا ہوں مستی میں

دم دے دیا ہے کس رخ روشن کی یاد میں
مرنے کے بعد بھی مرے چہرے پہ نور تھا

ایمان ساتھ جائے گا کیوں کر خدا کے گھر
کعبے کا راستہ تو کلیسا سے مل گیا

بت خانے میں کیا یاد الٰہی نہیں ممکن
ناقوس سے کیا کار اذاں ہو نہیں سکتا

کسی کے کم ہیں کسی کے بہت مگر زاہد
گناہ کرنے کو کیا پارسا نہیں کرتے

ہستئ غیر کا سجدہ ہے محبت میں گناہ
آپ ہی اپنی پرستش کے سزا وار ہیں ہم

کسی نے نہ دیکھا ترے حسن کو
مری صورت حال دیکھی گئی

قبر پر کیا ہوا جو میلا ہے
مرنے والا نرا اکیلا ہے

عیسیٰ سے دوائے مرض عشق نہ ہوگی
ہاں ان کو کوئی ڈھونڈ کے لے آئے کہیں سے

اٹھتے جوبن پہ کھل پڑے گیسو
آ کے جوگی بسے پہاڑوں میں

عیسیٰ کبھی نہ جاتے لیکن تمہارے غم میں
وہ بھی تو مر رہے ہیں جو آسمان پر ہیں

یہی صورت وہاں تھی بے ضرورت بت کدہ چھوڑا
خدا کے گھر میں رکھا کیا ہے ناحق اتنی دور آئے

گئے ہم دیر سے کعبے مگر یہ کہہ کے پھر آئے
کہ تیری شکل کچھ اچھی وہیں معلوم ہوتی ہے

اے خدا دنیا پہ اب قبضہ بتوں کا چاہیے
ایک گھر تیرے لیے ان سب نے خالی کر دیا

مرے ان کے تعلق پر کوئی اب کچھ نہیں کہتا
خدا کا شکر سب کے منہ میں تالے پڑتے جاتے ہیں

اک ہم کہ ہم کو صبح سے ہے شام کی خوشی
اک تم کہ تم کو شام کا دھڑکا سحر سے ہے

کیا اثر خاک تھا مجنوں کے پھٹے کپڑوں میں
ایک ٹکڑا بھی تو لیلیٰ کا گریباں نہ ہوا

نہ رو اتنا پرائے واسطے اے دیدۂ گریاں
کسی کا کچھ نہیں جاتا تری بینائی جاتی ہے

ہمارے میکدے میں خیر سے ہر چیز رہتی ہے
مگر اک تیس دن کے واسطے روزے نہیں رہتے

یہ تو ممکن نہیں محبت میں
آپ جو کچھ کہیں وہ ہم نہ کریں

نظر کے سامنے کعبہ بھی ہے کلیسا بھی
یہی تو وقت ہے تقدیر آزمانے کا

یہ پیدا ہوتے ہی رونا صریحاً بدشگونی ہے
مصیبت میں رہیں گے اور مصیبت لے کے اٹھیں گے

ٹھہرنا دل میں کچھ بہتر نہ جانا
بھرے گھر کو انہوں نے گھر نہ جانا

اب کون پھرے کوئے بت دشمن دیں سے
اللہ کے گھر کیوں نہ چلے جائیں یہیں سے

جب ان کی پتیاں بکھریں تو سمجھے مصلحت اس کی
یہ گل پہلے سمجھتے تھے ہوا بے کار چلتی ہے

دل ان کو مفت دینے میں دشمن کو رشک کیوں
ہم اپنا مال دیتے ہیں اس میں کسی کا کیا

جتنے بت ہیں میں سب پہ مرتا ہوں
میرا ایمان ایک ہو تو کہوں

اسی کو پی کے ہوتی ہے شفا بیمار الفت کو
دوا قاتل ترے تلوار کے پانی کو کہتے ہیں

بتوں میں نور ذات کبریا معلوم ہوتا ہے
مجھے کچھ دن سے ہر پتھر خدا معلوم ہوتا ہے

خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے

عاشقوں کی روح کو تعلیم وحدت کے لیے
جس جگہ اللہ رہتا ہے وہاں رہنا پڑا

محبت بت کدے میں چل کے اس کا فیصلہ کر دے
خدا میرا خدا ہے یا یہ مورت ہے خدا میری

نہ اس کے دامن سے میں ہی الجھا نہ میرے دامن سے یہ ہی اٹکی
ہوا سے میرا بگاڑ کیا ہے جو شمع تربت بجھا رہی ہے

یہ تو سمجھا میں خدا کو کہ خدا ہے لیکن
یہ نہ سمجھا کہ سمجھ میں مری کیوں کر آیا

زاہد تو بخشے جائیں گنہ گار منہ تکیں
اے رحمت خدا تجھے ایسا نہ چاہئے

کچھ نہ پوچھو کہ کیوں گیا کعبے
ان بتوں کو سلام کرنا تھا

ساقی مرا کھنچا تھا تو میں نے منا لیا
یہ کس طرح منے جو دھری ہے کھنچی ہوئی

کعبے میں ہم نے جا کے کچھ اور حال دیکھا
جب بت کدہ میں پہنچے صورت ہی دوسری تھی

تم کیوں شب جدائی پردے میں چھپ گئے ہو
قسمت کے اور تارے سب آسمان پر ہیں

آہ رسا خدا کے لیے دیکھ بھال کے
ان کا بھی گھر ملا ہوا دشمن کے گھر سے ہے

وہ پہلی سب وفائیں کیا ہوئیں اب یہ جفا کیسی
وہ پہلی سب ادائیں کیا ہوئیں اب یہ ادا کیوں ہے

حال زاہد جو مئے ناب کا پوچھے تو کہوں
ہے یہ وہ چیز جو کافر کو مسلمان کرے

کسی کے تیر کو چھاتی سے ہم لگائے رہے
تمام عمر کلیجے کے پار ہی رکھا

صورت تو ایک ہی تھی دو گھر ہوئے تو کیا ہے
دیر و حرم کی بابت جھگڑے فضول ڈالے

پڑا ہوں اس طرح اس در پہ مضطرؔ
کوئی دیکھے تو جانے مار ڈالا

خال و عارض کا تصور ہے ہمارے دل میں
ایک ہندو بھی ہے کعبے میں مسلمان کے ساتھ

وہ کریں گے وصل کا وعدہ وفا
رنگ گہرے ہیں ہماری شام کے

اس سے پہلے میں کبھی آباد گھر بستی میں تھا
آج مضطرؔ ایک اجڑا جھونپڑا جنگل میں ہوں

ساقی تری نظر تو قیامت سی ڈھا گئی
ٹھوکر لگی تو شیشۂ توبہ بھی چور تھا

خدا بھی جب نہ ہو معلوم تب جانو مٹی ہستی
فنا کا کیا مزا جب تک خدا معلوم ہوتا ہے

دھوکے سے بلا کر جو ملا تھا تو وہ مجھ سے
جب ملتے ہیں کہتے ہیں دغاباز کہیں کا

میری ہستی سے تو اچھی ہیں ہوائیں یا رب
کہ جو آزاد پھرا کرتی ہیں میدانوں میں

قیامت میں بڑی گرمی پڑے گی حضرت زاہد
یہیں سے بادۂ گل رنگ میں دامن کو تر کر لو

خدمت گشت بگولوں کو تو دی صحرا میں
میں بھی برباد ہوں مجھ کو بھی کوئی کام بتا

نگاہوں میں پھرتی ہے آٹھوں پہر
قیامت بھی ظالم کا قد ہو گئی

جا کے اب نار جہنم کی خبر لے زاہد
ندیاں بہہ گئیں اشکوں کی گنہ گاروں میں

پھونکے دیتا ہے کسی کا سوز پنہانی مجھے
اب تو میری آنکھ بھی دیتی نہیں پانی مجھے

وہ کہتے ہیں یہ ساری بے وفائی ہے محبت کی
نہ مضطرؔ بے وفا میں ہوں نہ مضطرؔ بے وفا تم ہو

بت کدہ میں تو تجھے دیکھ لیا کرتا تھا
خاص کعبے میں تو صورت بھی دکھائی نہ گئی

محبت کا اثر پھر دیکھنا مرنے تو دو مجھ کو
وہ میرے ساتھ زندہ دفن ہو جائیں عجب کیا ہے

مرا رونا ہنسی ٹھٹھا نہیں ہے
ذرا روکے رہو اپنی ہنسی تم

جو پوچھا دل ہمارا کیوں لیا تو ناز سے بولے
کہ تھوڑی بے قراری اس دل مضطرؔ سے لینا ہے

میرے غبار کی یہ تعلی تو دیکھیے
اتنا بڑھا کہ عرش معلی سے مل گیا

یہ نقشہ ہے کہ منہ تکنے لگا ہے مدعا میرا
یہ حالت ہے کہ صورت دیکھتا ہے مدعی میری

رنج غربت میں دیکھ کر مجھ کو
دل صحرا بھی باغ باغ ہوا

تمہاری جلوہ گاہ ناز میں اندھیر ہی کب تھا
یہ موسیٰ دوڑ کر کس کو دکھانے شمع طور آئے

وہ پاس آنے نہ پائے کہ آئی موت کی نیند
نصیب سو گئے مصروف خواب کر کے مجھے

جلے گا دل تمہیں بزم عدو میں دیکھ کر میرا
دھواں بن بن کے ارماں محفل دشمن سے نکلیں گے

وہ کہتے ہیں کہ کیوں جی جس کو تم چاہو وہ کیوں اچھا
وہ اچھا کیوں ہے اور ہم جس کو چاہیں وہ برا کیوں ہے

یہاں سے جب گئی تھی تب اثر پر خار کھائے تھی
وہاں سے پھول برساتی ہوئی پلٹی دعا میری

میں تری راہ طلب میں بہ تمنائے وصال
محو ایسا ہوں کہ مٹنے کا بھی کچھ دھیان نہیں

نمک پاش زخم جگر اب تو آ جا
مرا دل بہت بے مزہ ہو رہا ہے

پڑ گئے زلفوں کے پھندے اور بھی
اب تو یہ الجھن ہے چندے اور بھی

زلف کا حال تک کبھی نہ سنا
کیوں پریشاں مرا دماغ ہوا

قیس نے پردۂ محمل کو جو دیکھا تو کہا
یہ بھی اللہ کرے میرا گریباں ہو جائے

مسیحا جا رہا ہے دوڑ کر آواز دو مضطرؔ
کہ دل کو دیکھتا جا جس میں چھالے پڑتے جاتے ہیں

تیرے گھر آئیں تو ایمان کو کس پر چھوڑیں
ہم تو کعبے ہی میں اے دشمن دیں اچھے ہیں

خضر بھی آپ پر عاشق ہوئے ہیں
قضا آئی حیات جاوداں کی

روح دیتی رہی ترغیب تعلی برسوں
ہم مگر تیری گلی چھوڑ کے اوپر نہ گئے

قاصد نے خبر آمد دلبر کی اڑا دی
آیا بھی تو کم بخت نے بے پر کی اڑا دی

جلوۂ رخسار ساقی ساغر و مینا میں ہے
چاند اوپر ہے مگر ڈوبا ہوا دریا میں ہے

ساقی وہ خاص طور کی تعلیم دے مجھے
اس میکدے میں جاؤں تو پیر مغاں رہوں

اڑا کر خاک ہم کعبے جو پہنچے
حقیقت کھل گئی کوئے بتاں کی

میرا دل مضطرؔ بت کافر سے لگا ہے
اور آنکھ مری سوئے خدا دیکھ رہی ہے

Leave a reply