سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے سپریم کورٹ میں دلائل دیئے گئے،وکیل نے کہا کہ ایگزیکٹو اپنا کام نہ کرے تو لوگ عدالتوں کے پاس ہی آتے ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب ترمیم اس اسمبلی نے کی جو مکمل ہی نہیں،اس پر قانون نہیں ملا کہ نامکمل اسمبلی قانون سازی کر سکتی ہے یا نہیں سیاسی حکمت عملی کے باعث آدھی سے زیادہ اسمبلی نے بائیکاٹ کر رکھا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم سے فائدہ صرف ترمیم کرنے والوں کو ہی ہوا،چند افراد کی دی گئی لائن پر پوری سیاسی پارٹی چل رہی ہوتی ہے،لائن کو فالو کریں تو اس کا فائدہ صرف چند افراد کی ذات کو پہنچتا ہے نیب ترمیم کی ہدایت کرنے والوں کو اصل میں فائدہ پہنچا، کیا ایسی صورتحال میں عدلیہ ہاتھ باندھ کر تماشا دیکھے؟نیب ترامیم کو بغیر بحث جلد بازی میں منظور کیا گیا،ترامیم کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو آگے جانے کی ضرورت ہی نہیں،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے باوجود کرپشن ختم نہیں ہوسکی، مسئلہ صرف کرپشن کا نہیں سسٹم میں موجود خامیوں کا بھی ہے سسٹم میں موجود خامیوں کو کبھی دور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی،پارلیمان کا کام ہے سسٹم میں بہتری کیلئے قانون بنائے اور عمل بھی کرائے،ہر صوبے میں پانچ ماہ بعد آئی جی اور تین ماہ بعد ایس ایچ او بدل جاتا ہے،ایگزیکٹو فیصلے کرتے وقت قانون پر عمل نہیں کیا جاتا، ماضی میں ریکوڈک اور اسٹیل مل کے فیصلے عدالت نے اچھی نیت سے کیے،حکومت سسٹم کی کمزوری کے باعث منصوبوں میں کرپشن پکڑ نہیں سکی، نیب قانون کے غلط استعمال سے کتنے لوگوں کے کاروبار تباہ ہو چکے ہیں،کرپشن پر کسی صورت معافی نہیں ہونی چاہیے،

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کرپشن غلط ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن ہونی نہیں چاہیے،سوال یہ ہے کہ کرپشن کا سدباب کس نے اور کیسے کرنا ہے،وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کرپشن ختم کرنا ایگزیکٹو کا کام ہے، اگر وہ نہیں کر سکی تو عدالت مداخلت کرتی ہے، عدالت نے ہمیشہ عوامی عہدوں پر کرپشن کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں بہت سے معاملات میں بہتری بھی آئی ہے،خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے اور سچ سامنے لاتا ہے، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پاکستانی میڈیا ورلڈ رینکنگ میں 180 میں سے 157 نمبر پر ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کرپشن کی رینکنگ میں پاکستان اسی نمبر پر ہے جو نیب ترامیم سے پہلے تھا،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم کے بعد اب جو رینکنگ جاری ہوگی اس میں پاکستان یقینا 100 نمبر نیچے جا چکا ہوگا ،جب سسٹم تباہ ہو رہا ہو تو عدلیہ مداخلت کرتی ہے،عدالت کس اختیار کے تحت نیب ترامیم کو مفادات کے ٹکراو پر کالعدم قرار دے سکتی ہے؟ وکیل نے کہا کہ خود کو فائدہ پہنچانے کیلئے کی گئی قانون سازی کیلئے ریگولیٹری کیپچرکی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا پھر ہم حالیہ نیب ترامیم کو پارلیمنٹری کیپچر کہیں گے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمنٹری کیپچر کسی اور معنی میں استعمال ہوتا ہے، سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی

 سپریم کورٹ مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گی

اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ پلی بارگین کے بعد بھی ملزم کا اعتراف جرم تصور نہیں ہو گا،چیف جسٹس

، 25 کروڑ آبادی میں سے عمران خان ہی نیب ترامیم سے متاثر کیوں ہوئے؟

واضح رہے کہ عمران خان نے موجودہ حکومت کی جانب سے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے ،عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں عمران خان نے استدعا کی تھی کہ سیکشن 14،15، 21، 23 میں ترامیم بھی آئین کے منافی ہیں۔ نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19A, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

Shares: