نجومی اور قسمت، ‏تحریر ۔ عمالقہ حیدر

0
80

عجیب بات تو یہ ہے چھ فٹ کا وجود اور کائنات سے وسیع دماغ ،پہاڑوں سے مضبوط ارادہ، سمندروں سے گہری سوچ رکھنے والا شخص جب اپنا توانائی سے بھرا ہوا ہاتھ نجومی کے ہاتھ پہ رکھ کر قسمت بارے پوچھتا ہے تو اچھی قسمت نحوست کی چادر اوڑھ کر اک مدت کے لئے سو جاتی ہے، یوں اچھی قسمت والا دوسری کی زبان سے نکلی ہوئئ قسمت کا شکار ہو جاتا ہے، آدھی قسمت دوسرے کے ہاتھ میں ہوتی،

پرانے زمانے کی طرح آج بھی فٹ پہ بیٹھے نجومی کے پاس نوجوان ہاتھ دکھا کر اپنے مستقبل کے حالات سن رہے ہوتے ہیں، نجومی کی بہت سی پیش گوئیاں کے بعد محبوبہ سے شادی بھی ہونے کے قوی امکان ظاہر ہوتے ہیں،یوں ایسی باتیں سن کر دل کی تسکین بڑھتی چلی جاتی ہے

نجومی کے کہے ہوئے الفاظ ذہنی تخیلات بدلنے میں دیر نہیں کرتے، عام ذہن سب سے زیادہ قسمت پر انحصار کرتا ہے، خاص ذہن نجومی کے لفظوں کو گورکھ دھندہ سمجھ کر بچ جاتے ہیں، قسمت پر انحصار کرنے والے دراصل زمہ داریوں سے بچتے ہیں،
جو حالات کا مقابلہ نہیں کر سکتا وہ دفاع کے لئے قسمت کی ڈھال استعمال کر جاتا ہے،
ہم جس قسمت کو نجومی کے حوالے سوچتے ہیں وہ نجومی خود قسمت کے ہاتھوں ذلیل ہو کر ہمیں اپنا جیسا بناتا ہے،
نجومی ہمیں بتاتا ہے کہ ہاتھ کی فلاں لکیر تمہارے لئے اچھی نہیں ہے اگلے سال آپ اک حادثہ کا شکار ہو جائیں گے، کاروباری ترقی ابھی تک تو رکی ہوئ ہے لیکن جب آپ چھپن سال کے ہو جائیں گے تب کہیں بہتری ہو گی کیونکہ اجکل آپکا ستارہ بھی آپکے حق میں نہیں ہے زحل کی چھاؤں پڑنے سے زندگی اچانک رخ موڑ ے گی اور یوں تم اک چھوٹے سے کام میں شہرت یافتہ ہو جاؤ گے،لوگ آپ کے آٹو گراف کو ترسیں گے،ایسی بات سن کر دل تو بہلے گا۔

اک حکایت نجومی بارے معروف ہے کہ نجومی آسمانوں کی خبریں گلی گلی سناتا تھا، مستقبل کا وہ خاکہ بیان کرتا کہ سننے والے کے پاس سوائے ایمان لانے کہ کچھ نہ بچتا تھا، اک دن نجومی ہر آدمی کو مطمئن کیے جا رہا تھا، کہ آدمی نے کہا، آنے والے زمانے کی خبریں سنانے والی یہ بھی آج بتا دے کہ تیری بیوی کے آشنا کا نام کیا ہے، یہ سن کر اس کے وجود کی ساری طنابیں ایسی ٹوٹی کی وہ دوبارہ نہ بن سکی،اور ہمیشہ کے لئے نجومی آسمان کی خبروں کی طرح غیب ہو گیا،

لوگوں کو غیب کی خبریں بتانے والہ اپنی بیوی کے آشنا سے لاعلم ہے،

اس لئے اک زمانہ تھا جب علم نہیں تھا شعور نہیں تھا، انسان کی اڑان نجومی تک تھی اب ہمیں سوچنا چاہئے کہ کائنات اک اصول پر چل رہی ہے عمل کا رد عمل ہو رہا ہے سستی اور کاہلی کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ مسلسل محنت کا پھل مل کر رہتا ہے، زمہ داریوں سے بچنے کے کتنے بڑے حادثات جنم لیتے ہیں، ہم آج کام نہیں کریں گے تو کل دوستوں سے پیچھے رہ جائیں گے، کار کی خواہش رکھنے والہ محنت بغیر نہیں خرید سکتا،
خدا نہ چھپر پھاڑ کر دیتا ہے اور نہ ہمیں مزید انتظار کرنا چاہئے، نہ ہمیں زندگی کو قسمت کے حوالے کریں نہ کسی نجومی کے رحم و کرم پر کریں ہم اپنے مدد گار آپ ہیں،

،برے زمانے میں سب سے پہلے بھای چھوڑتا ہے اور بعد میں بہترین دوست،

اس لئے دوسروں پر توقع نجومی کے خوبصورت لفظوں جیسی ہے،
اس لئے ہر جوان کے پاس ٹوٹل پندرہ سے بیس سال ہوتے ہیں بعد میں سب مایا لگتا ہے،
ہم محدود اور ہماری خواہشات لا محدود ہیں،فطرت اپنے اصولوں سے انحراف نہیں کرتی، سردیوں کی طویل رات بیمار اور صحت مند کے لئے یکساں ہے،
ہم جو پھینکیں گے وہی لوٹے گا، اس لئے ہم نے اپنے اہداف خود آپ نے بنانے ہیں اور خود ہی مکمل کرنے ہیں، نہ کوئ ساتھ دیتا ہے اور نہ کوئ ساتھ کھڑا ہوتا ہے، ہاں اگر کوئ ساتھ ہوتا بھی ہے تو ذاتی مفاد کی خاطر،

اللہ ہم سب کے ایمان پختہ کرے اور ہر اس چیز سے دور کرے جو ہمارے ایمان کو متزلزل کرتی ہے، اور ایسے ہستی سے ضرور آشنائی دے جو ہمارے انگلی صراط مستقیم تک لے جائے۔ آمین ثم آمین

Leave a reply