22 برس گزر جانے کے باوجود نصرت فتح علی خان آج بھی دلوں پر راج کرتے ہیں

0
70

شہنشاہ قوال اور موسیقی کے بے تاج بادشاہ استاد نصرت فتح علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 22 برس بیت گئے لیکن ان کی خوبصورت آواز کا جادو آج بھی دلوں پر راج کرتا ہے۔
نصرت فتح علی خان نے 16 سال کی عمر میں صوفی قوالی کا رنگ اپنایا اور قوالی کے ساتھ غزلیں،کلاسیکل اور صوفی گیت بھی گائے۔ وہ ہارمونیم، طبلہ اور دیگر آلات بجانے کے فن سے بھی خوب آشنا تھے۔
پاکستان، بھارت، برطانیہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے منفرد صوفی انداز سے سب کو اپنا گرویدہ بنانے والے استاد نصرت فتح علی خان نے اردو، پنجابی اور فارسی زبان میں قوالیاں اور غزلیں گائیں جنہیں بے حد سراہا گیا۔
انہوں نے قوالیوں اور غزلوں سمیت ملی نغمے بھی گائے جن میں ’میرا پیغام پاکستان‘ سب سے زیادہ مقبول ہے۔
نصرت فتح علی خان نے متعدد قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز حاصل کیے۔
قوال کی حیثیت سے ایک سو پچیس آڈیو البم ان کا ایک ایسا ریکارڈ ہے، جسے توڑنے والا شاید دوردورتک کوئی نہیں، ان کی شہرت نے انہیں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ دلوائی، دم مست قلندر مست ، علی مولا علی ، یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، میرا پیاگھر آیا، اللہ ہو اللہ ہو اور کینا سوہنا تینوں رب نے بنایا، جیسے البم ان کے کریڈٹ پر ہیں، ان کے نام کے ساتھ کئی یادگار قوالیاں اور گیت بھی جڑے ہیں۔انہوں نے متعدد بھارتی فلموں کے گانوں میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا، خاص کر بالی وڈ کی مشہور فلم دھڑکن کا گانا ‘دولہے کا سہرا سہانا لگتا ہے’ کو تو بے حد پزیرائی ملی۔
ٹائم میگزین نے دوہزار چھ میں ایشین ہیروز کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل کیا، بطور قوال ا اس عظیم فنکار کو کئی بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ن کی کئی قوالیوں اور گیتوں کو پاکستان اوربھارت کے گلوکاروں نے اپنے اپنے انداز میں گایا ہے۔
شہنشاہ قوال نصرت فتح علی خان جگر اور گردے کی تکلیف کے باعث 16 اگست 1997 کو دنیائے فانی سے کوچ کرگئے لیکن ان کے گائے گئے گیت امر ہوگئے آج ان کی بائیسویں برسی منائی جا رہی ہے

Leave a reply