لاہور:سعودی عرب میں پاکستان کی فوجی سیاسی شخصیات کا اکٹھ بہت بڑے بریک تھرو کی طرف اشارے ہیں ،اطلاعات کےمطابق اس وقت سعودی عرب میں پاکستان کی فوجی اورسیاسی قیادت موجود ہےاوریہ پہلا موقع ہے کہ ایک ہی وقت میں پاکستان کے بڑے ذمہ دارایک ہی وقت میں وہاں موجود ہیں
جہاں تک تعلق ہے پاکستان کی سیاسی صورت حال کا تعلق ہےتواس کے متعلق توپیش گوئی کرنا غلط ہوگا کیوںکہ ادارے یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ وہ 35 سال کے پرانے گند کواب واپس نہیں آنے دیں گےاس کے لیے بہت بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے
اس لیے یہ طئے ہے کہ سعودی عرب میں یہ اکٹھ پاکستانی سیاست کے حوالے سے نہیں ہوسکتا ہے اوراگریہ مراد بھی لیا جائےتوپھریہ بھی ہوسکتا ہےکہ اس دوران ایسے معاہدے سامنے آسکتے ہیں کہ شریف فیملی کو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے سیاست سے آوٹ ہونا پڑے گا اوراگراس حوالے سے دیکھا جائے توسعودی عرب میں دونوں شخصیات کے اکٹھ کوکچھ حد تک اس حوالے سے مراد لیا جاسکتا ہے
دوسرا اہم ایشوبھارت کےساتھ تنازعات کا ہے توپاکستان پہلے دن سے بھارت کے ساتھ کشمیرکے معاملے کی بنیاد پرمذاکرات کا حامی ہے اوراگریہ کہا جائےکہ پاکستان اوربھارت کشمیرکےحوالے سے کچھ بات چیت کرنے جارہےہیں تواس حد تک تو مانا جاسکتا ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کشمیرکا معاملہ بھارت اورپاکستان کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ بھی وہی اہمیت اختیاررکھتا ہےاورویسے بھی پاکستان اورچین کی خارجہ پالیسی اوراسٹریٹجک حکمت عملی اس حوالے سے ایک ہے اوراس میں کوئی دورائے نہیں
دوسری اہم چیز یہ ہےکہ سیاسی طعنے اپنی جگہ لیکن یہ بات چڑھتے سورج کی طرح عیاں اورروشن ہےکہ پاکستان کشمیرکے معاملے پرکبھی بھی ایک انچ پیچھے ہٹنے کےلیے تیارنہیں ، ہاں اپنی حکمت عملی سے اس کو ڈیل کرنے کے لیے مختلف اندازاختیارکرنے پڑتے ہیں اوروہ ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں
کشمیر کےمعاملے پرتیسری اوراہم نقطے والی بات یہ ہےکہ جب بھی بھارت پردباوآتا ہے توبھارت کواس دباوسےنکالنے کےلیے بھارت کے اتحادی اورچین اورپاکستان کے مخالف ممالک جن میں امریکہ کےساتھ 50 سے زائد ممالک ہیں وہ بھارت کواس مشکل سے نکالنے کے لیے بیک ڈوررابطوں کا کھیل کھیل کراس معاملےکوبھارت کےلیے آسان کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہین چاہیں گے کہ کشمیربھارت کے ہاتھوں سے نکل جائے
لیکن یہ یاد رکھیں کہ جووجوہات اوپربیان ہوچکی ہیں پاکستان اوربھارت اس سے آگے نہیں نکل سکتے اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے اوروہ ہے جنگ یا پھرگوریلا جنگ
اس کے علاوہ اگردیکھا جائے تویہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چند دن پہلےروسی وزیرخارجہ پاکستان آئے تھے اس سے پہلے وہ سعودی حکمرانوں کے ساتھ مختلف خفیہ ملاقاتیں کرچکے ہیں ،
ان ملاقاتوں کا پس منظرعالمی منظرنامے پرامریکہ اوراتحادیوں کی طرف سے نئی جنگ کے لیے تیاریاں اورمشترکہ حکمت عملی سے تعلق رکھتا ہے
سعودی عرب ان حالات میں جبکہ بہت مشکل میں ہے ایک طرف ایران ، یمن اورپھرامریکہ کی طرف سے دھمکیاں اوربلیک میلنگ ہے ، ان حالات میں سعودی عرب کومشکل وقت میں اگرکوئی ملک یا قوم سہارا دے سکتی ہے تووہ پاکستان ہے ، ویسے بھی عالمی منظرنامے پردوست اوردشمن بدل رہےہیں اورامکان یہی نظرآتا ہے کہ سعودی عرب اب امریکہ کے بلاک سے نکلنا چاہتا ہےاوروہ چین ، پاکستان اورروس کےساتھ اپنے رابطے مضبوط کرنا چاہتا ہے ، بادی النظرمیں یہ ملاقاتیں خطے میں نئے جمع بندی اورحکمت عملی کا پیش خیمہ ہوسکتی ہیں
یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ پاکستان سعودی عرب اورایران کےدرمیان معاملات کوبہترکرنے کےلیے کوشاں ہے توکوششوں کواچھا ہی کہنا چاہیے، ان کوششوں سے وقتی طورپرتوان دونوں ملکوں کے درمیاں بڑھتی ہوئی خلیج میں کچھ وقت کے لیے ٹھہراو آسکتا ہے لیکن ایک بات کبھی بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ایران اورسعودی عرب کا اختلاف ، زمین ، حکومت کے قبضے اورجغرافیائی مقاصد کےحصول کےلیے نہیں بلکہ یہ وہ اختلاف ہے جس کے بارے میں واضح طورکہہ رہا ہوں کہ یہ نظریاتی اختلاف ہےکوئی مانے یہ نہ مانے لیکن اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جاسکتا
یہ اختلاف جوبنی امیہ اوربنوعباس کے دور سے شروع ہوا ابھی تک یہ چلتا آرہاہے جو اختلاف اس بہترین زمانے میں ختم نہ ہوسکے وہ آج کیسے ہوسکتے ہیں ، یہ اختلافات ہی توامت کی تقسیم کا سبب ہیں
سعودی عرب میں وزیراعظم عمران خان اورآرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ اگرایران اورسعودی عرب کےدرمیان صلح کےلیے کوشان ہیں تواس کے وقتی طورپرتواچھے اثرات نکلیں گے لیکن یہ بہت جلد اپنے پرانے نظریاتی اختلافات کا شکارہوجائیں گے
بہر کیف پاکستان کویہ اعزاز حاصل ہےکہ پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جس کےبغیرخطے کےدوسرے ممالک کوئی فیصلے کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ، پاکستان اپنا کرداراداکرے گا اوردونوں مسلم ریاستوں کےدرمیان اتفاق ومحبت پیدا کرنے کی کوشش کرے گا لیکن بات وہی ہےکہ جواختلاف قرون اولیٰ میں پیدا ہوا اورجس کوبڑی بڑی متبرک شخصیات بھی ختم نہ کرواسکیں اب یہ کیسے ختم ہوگا ناممکن ہے
پاکستانی قیادت سعودی عرب اورترکی کے درمیان بھی فاصلوں کوکم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس سلسلے میں بہت جلد اچھی خبرسننے کو ملے گی ، طیب اردوان سعودی عرب آئیں گے اورپھریہ دونوں مسلم قوتیں پھرسے بھائی بھائی بن جائیں گی اوراس کا کریڈٹ بھی وزیراعظم عمران خان کو ہی جاتا ہےکہ جوخلوص دل سے امت مسلمہ کے اتحاد کےلیے کوشاں ہیں
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اس اہم دورے کے دوران سعودی عرب پاکستان سے جدید اسلحے کی فراہمی کی بھی بات کرے گا جس کامطلب واضح ہےکہ پاکستان خطے کا ایک بہت مضبوط معاشی ملک بن کرسامنے آئے گا