عورت کارڈ آخر کب تک تحریر: سیف الرحمان

0
71

’وجودِ زن سے تصویر کائنات میں رنگ‘
کسی بھی معاشرے کے بنانے اور بگاڑنے میں خواتین کا کردار انتہائی اہم ہوا کرتا ہے۔ ایک پڑھی لکھی خاتون معاشرے کی ترقی کا ستون ہوا کرتی ہے۔ اولاد کی تعلیم و تربیت مرد کی نسبت عورت کی ذمہ ذیادہ ہوتی ہے۔ ویسے تو عورت اور مرد دونوں کا پڑھا لکھا ہونا معاشرے کیلئے اہم ہے لیکن خواتین کی تعلیم کو فوقیت نا دینا آنے والی نسل کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے الٹی گنگا بہنا شروع ہو رہی ہے۔ ہمارے معاشرے کی کچھ خواتین جہاں باقی خواتین کیلئے پریشانی کا باعث بن رہی ہیں وہاں وہ سوسائیٹی کے مردوں کیلئے بھی خطرہ بنتی جا رہی ہیں۔ خواتین کے حقوق کی بات قرآن اور حدیث سے ثابت ہے اور طریقہ کار بھی دیا گیا ہے۔ لیکن چند لبرل خواتین عورت کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے نا صرف مردوں کو نہچا دیکھانے کی کوشش کر رہی ہیں وہیں وہ ملک کیلئے بھی بدنامی کا باعث بھی بن رہی ہیں۔
خواتین کے ساتھ ذیادتی کو بحثیت قوم ہم سب کو مل کر ختم کرنا ہو گا لیکن چند مردوں کی جہالت کو ساری قوم کی سوچ بنا کر پیش کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ انسانی حقوق کی ساری تنظیمیں صرف سلیکٹٹڈ عورتوں کیلئے ہی آواز کیوں اٹھاتی نظر آتی ہیں؟
ہم سوشل میڈیا پر بغیر تصدیق ایسے لوگوں کی آواز بن جاتے ہیں جن کو یا تو مشہوری چاہئے ہوتی ہے یا پھر انکا مقصد ملک کو بدنام کرنا ہوتا ہے۔ عورت کی ہلکی سی چیخ مرد کی ہنستی بستی زندگیاجار سکتی ہے۔ لیکن مرد کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ ہمیشہ مرد کو ہی قصوروار کیوں سمجھا جاتا ہے؟
پاکستانی معاشرے میں خواتین کا ایک مقام ہے۔ یہی عزت و احترام کی روایات ہمیں باقی معاشروں سے جدا کرتی ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور ہمارا قانون عین اسلامی ہے۔ اسی لئے ہمارا آئین اور قانون بھی عورت کو پروٹکشن دیتا نظر آتا ہے۔
خدا راہ ایک مرد کو لے کر سارے ملک کے مردوں کو بدنام مت کیا کریں۔ ایک عورت کیساتھ ظلم کو لے کر سارے ملک کی خواتین کو مظلموم بنا کر مت پیش کیا کریں۔ ہم سب کو اپنی اپنی اصلاح کرنی ہو گی۔ لبرل لوگوں کی باتوں میں آ کر کسی ایک کیس کو انساتی حقوق کا مسئلہ بنا کر نہیں پیش کرنا چاہئے۔
اپنی بیٹیوں/بہنوں کو ٹک ٹاک سٹار کی بجائے دینی اور دنیاوی تعلیم کا دیں ۔ انکی بچپن سے ہی اخلاقی تربیت سیکھائی جائے۔ اپنی تہذیب و ثقافت سے آشنا کیا جائے۔ جب ایسی تربیت والی بیٹی/بہن معاشرے میں آئے گی تو اسے عورت کارڈ کا سہارہ نہیں لینا پڑے گا۔
عورت کو سماج میں ہر طرح کی آزادی ملنی چاہیے مگر وہ آزادی ایسی نہ ہو کہ جس سے اپنی تہذیب اور اخلاق میں گراوٹ آجائے۔ مغربی تہذیب کے زیرِ اثر عورت معاشرے میں جو مقام تلاش کررہی ہے وہ مشرقی تہذیب کے منافی ہے۔ اور اس سے صرف بربادی وجود میں آتی ہے۔
قرآن کا ارشاد ہے ’’وہ (عورت) تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو‘‘ قرآن کی یہ آیت سمندر کو کوزے میں بند کرتی ہے- اس کا تجزیہ کرنے سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ عورت کی عفت و پاکبازی اور مرد کی پاکیزگی اور پاک دامنی ایک دوسرے پر منحصر ہے- علاوہ ازیں مرد و زن معاشرتی اور تمدنی زندگی کے اغراض و مقاصد کے لیے ایک دوسرے کے محتاج ہیں-
لہذا عورت کارڈ کھیل کر مردوں کو بدنام کرنے کا طریقہ واردات بند کیا جانا چاہئے۔ اگر کسی عورت کیساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو وہ متعلقہ اداروں سے رجوع کرے اگر وہاں سے انصاف نا ملے تو پھر سوشل میڈیا پلیٹ فام استعمال کرے۔

@saif__says

Leave a reply