عورتوں کا وراثت میں حصہ — ڈاکٹر عدنان خان نیازی

0
59

میں نے عورتوں کو وراثت میں حصہ دینے سے متعلق پوسٹ کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کے حقوق کے علمبردار لبرل ہوں یا اسلام پر عمل کرنے کے دعویدار مذہبی لوگ، عورتوں کو جائیداد میں حصہ دینے کے معاملے پر دونوں ہی ڈنڈی مارتے ہیں۔

اس پر ایک عورت نے رابطہ کیا اور کہا کہ عورتوں کو جائیداد میں حصہ نہ دینے والے معاملے میں عورتیں بھی قصووار ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ میرے والد صاحب وراثت میں بہت سی زمین جائیداد چھوڑ کر گئے۔ ہم تین بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ والدہ صاحبہ بھی حیات ہیں۔ والد صاحب کی وفات کے کئی سال بعد تک اس زمین جائیداد کی ساری آمدن اکیلے بھائی ہی کھاتے رہے اور بہنوں کو کسی نے کچھ نہ دیا۔ میرے علاوہ کسی بہن نے کبھی اس بارے کوئی بات نہیں کی۔ والدہ صاحبہ ایک عورت ہونے کے باوجود اس بات کی قائل ہیں کہ جائیداد پر صرف بیٹوں کا حق ہے۔ میں نے جب بھی بات کی مجھے ہمیشہ لالچی اور پیسے کی حریص ہونے کا طعنہ ملا حالانکہ میں صرف اپنے جائز حق کی بات کرتی تھی۔ آخر والد صاحب کی وفات کے کئی سال بعد بھائیوں کو جائیداد اپنے نام لگوانے کی سوجھی۔ وراثت میں ہمارا بھی حصہ تھا تو ہماری دستخط کے بنا تو ان کے نام نہیں لگ سکتی تھی۔ رسمی کاروائی کے لیے ہمیں بھی بلایا گیا اور رسماً کہا گیا کہ آپ تینوں بہنوں نے بھی حصہ لینا ہے تو دے دیتے ہیں۔ یا پھر ہمارے نام لگوانے کے لیے بیان دے دیں اور دستخط کر دیں۔ اس موقع پر والدہ صاحبہ کا بھی یہی موقف تھا کہ آپ لوگوں یعنی بیٹیوں کو زمین دی تو وہ غیروں میں چلی جائے گی۔

میں نے اس کا جواب یہ دیا کہ زمین ہو یا جائیداد ، ہمیشہ کسی ایک کی نہیں رہتی بلکہ کبھی ایک کے پاس تو کبھی دوسرے کےپاس ہوتی ہیں۔ یہ زمینیں ہزاروں لاکھوں سال سے یہی ہیں اور یہی رہیں گی۔ ہر صدی میں کئی بار ان کے مالکان بدل جاتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کسی صورت درست نہیں کہ غیروں کے پاس چلی جائے گی۔ پھر بھی اس کا یہ حل بھی ہے کہ یہ مہنگی گاڑیاں بیچ کر ہمیں جائیداد کی بجائے اس کی قیمت ادا کر دیں یا ابھی ہمارے نام لگوا دیں اور جیسے جیسے اس قابل ہوتے جائیں ہم سے خریدتے جائیں۔

اس ساری بحث میں میری بہنیں گونگی بہری بنی رہیں۔ کسی نے کوئی بات نہیں کی۔ البتہ میری ماں کی کوشش تھی مجھے چپ کروا دیں۔

میری بہنیں اگلے دن عدالت جا کر ساری جائیداد بھائیوں کے نام کروانے پر تیار تھیں لیکن میں نے صاف انکار کر دیا۔ مجھے یہ کہا گیا کہ یہ بھی تو ہمارے نام لگوا رہی ہیں، صرف آپ ہی لالچی ہو۔ میں نے اس کا جواب یہ دیا کہ یہ صرف اور صرف معاشرے میں رائج اس رسم ورواج کی وجہ سے خاموش ہیں۔ ان میں اپنے حق کے لیے اس سے ٹکر لینے کی ہمت نہیں ہے۔ میرا ایک چیلنج قبول کریں آپ لوگ۔ کل ان کا حصہ ان کے نام لگوائیں یا اس کی قیمت انھیں ادا کریں، پھر انھیں گھر جانے دیں اور اس سے اگلے دن آپ انھیں کہیں کہ اب وہ حصہ آپ کو واپس کر دیں کیونکہ پہلے بھی تو ہمارے نام لگوانے پر راضی تھیں۔ اگر تب پورا کیا آدھا حصہ بھی یہ آپ کو دینے پر راضی ہو جائیں تو میرا سارا حصہ آپ لے لیجیے گا۔ یہ میں آپ کو لکھ کر دینے کو تیار ہوں۔

ساری رات اس بحث و مباحثہ کے بعد بالآخر اسی پر بات طے ہوگئی۔ اگلے دن ہمارا حصہ ہمارے نام کروا دیا گیا۔ اس میں بھی ڈنڈی ماری گئی کہ جو اچھی زمین تھی وہ خود رکھ لی ۔ لیکن یہ بھی غنیمت تھی کہ ہمیں حصہ مل گیا۔

سب کے نام لگنے کے کچھ دن بعد بھائیوں نے بہنوں سے کافی کہا، تحائف بھی دیے، میٹھے بنے، اچھے سے پیش آئے لیکن کوئی بھی اب اپنا حصہ کسی بھائی کے نام لگوانے پر راضی نہیں تھی۔

مجھے اس کا نقصان یہ ہوا کہ میرے ساتھ میرے بھائیوں اور والدہ صاحبہ نے ہر تعلق توڑ لیا اور آج تک ٹوٹا ہوا ہے۔ میں نے کوشش کی لیکن مجھے اپنے گھر میں بھی داخل نہیں ہونے دیتے۔ میری بہنوں نے بھی اپنا حصہ لے لیا لیکن وہ خاموش رہی تھیں تو ان سے تعلقات ہیں۔

کاش کہ ہمارے معاشرے کی خواتین اپنے اس حق کے لیے بولنا سیکھ جائیں۔ یہ کوئی خیرات نہیں، حق ہے جو اللہ نے خود ہمیں دیا ہے۔ صرف اس لیے نہ چھوڑیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اس لیے بھی اس کی کوشش کریں کہ آپ کا یہ لڑنا کئی دوسری خواتین کے لیے بھی مشعل راہ ہوگا اور ان کے لیے ایک راستہ کھولے گا کہ وہ اپنا حق لے سکیں۔

Leave a reply