پاک افغان تعلقات . تحریر: ارم چوھدری

0
37

جغرافیائی لحاظ سے پاکستان ایسے ہی ہے جیسے تیز نوکیلی تلواروں کی چھاؤں میں بیٹھا معصوم ہرن کا سہما ہوا
بچہ ایک طرف افغانستان کی جانب سےڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کے عمل میں روز ہمارے فوجی جوانوں کی شہادتیں اور دوسری طرف بھارت کا جنگی جنون ہمہ وقت پاکستان کو حالت جنگ میں رکھتا بات اگر افغانستان کی کی جائے توپاکستان اور افغانستان جنوبی ایشیا کے دو اہم ہمسایہ ممالک ہیں۔ دونوں ممالک تاریخی لحاظ سے جغرافی،لسانی اور نسلیتی بلکہ مذہبی وابستگی بھی رکھتے ہیں دیکھا جائے تو
افغانستان اور پاکستان کے تعلقات بہت عرصے سے کچھ زیادہ ٹھیک نہیں چل رہے.

اسکی سب سے بڑی دو وجوہات ہیں پہلی یہ کہ کابل یہ دعوٰی کرتا ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے اور وہ علاقے جہاں پشتون آباد ہیں بشمول خیبر پختونخوا،قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان کا ایک بہت بڑا حصہ وہ افغانستان کا حصہ ہے
اور اس دماغی فتور کے لئے افغانستان نے کئی تحریکیں بھی چلائیں جس میں PTM سر فہرست ہے لیکن پاکستان اور بلوچستان کی غیور عوام نے نہ صرف اس تعصب زدہ تحریک کو بلکہ اس کے چلانے والوں کو بھی مسترد کردیا.

پاکستان ہمیشہ سے افغانستان میں امن کی بحالی کی کوشش کرتا ہے کیوں کہ پاکستان اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ خطے میں امن کے لئے افغانستان میں امن ضروری ہے اور اس کے لیے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی کوششیں نا قابل فراموش ہیں
افغانستان میں امن کے لئے طالبان کے ساتھ اتحادی حکومت لازمی ہے اور یہ بات انڈیا کو کھٹکتی ہے کیوں کہ انڈیا کبھی نہیں چاہتا کہ خطے میں امن و امان قائم ہو اور اسکی غنڈا گردی بند ہو جائے اس ضمن میں وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے جس سے امن تباہ ہو
اور ماحول کشیدگی کی طرف جائے.

ایسے میں جب امریکہ کی تاریخی ہار ہوئی اور اتحادی افواج کا افغانستان سے انخلا یہ ایک انتہائی خوش آئند بات ہے امریکہ نے دو دہائیوں تک با حثیت سپر پاور افغانستان میں جنگ کر کے دیکھ لیا بالآخر ہار اسکا مقدر ٹھہری موجودہ افغان صدر اشرف غنی جو امریکہ کی زبان بولتا اور اس کے اشاروں پر چلتا ہے اس کے لیے اپنا اقتدار قائم رکھنا مشکل ہو گیا کیونکہ طالبان نے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا ماسوائے چند علاقوں کے اور بہت جلد طالبان پورے افغانستان پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے افغان عوام طالبان کا ساتھ دے رہی ہے کیوں کہ وہ محکوم قوم کے طور پر رہنا پسند نہیں کرتے. اسی حقیقت کو سمجھتے ہوئے عمران خان نے آج سے پندرہ سال پہلے کہا تھا کہ افغانستان میں حکومت اور امن کے لئے طالبان کے ساتھ مذکرات بہت ضروری ہیں.

میرے خیال سے پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے پالیسیاں اس وقت تک تبدیل نہیں ہوں گی، جب تک پاکستان کو یہ گارنٹی نہ مل جائے کہ افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال نہیں ہو گی اور پاکستان کو جغرافیائی لحاظ سے تقسیم کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی
اور اس کے لیے سب اہم بات یہ ہے کہ افغانستان میں انڈیا کی دخل اندازی بند ہو.

حالیہ دنوں میں انڈیا نے اپنے سفارت خانے سے عملہ واپس لانے کے لئے فضائیہ کے جہازوں میں عملہ کی بجائے بھاری مقدار میں بارود بھر کے بھیجا اور اس کی یہ مکروہ سازش بے نقاب ہو گئی طالبان نے ویڈیو جاری کی اور ساری دنیا کے سامنے انڈیا کی حقیقت واضح ہو گئی انڈیا در حقیقت امریکہ کے کہنے پر اشرف غنی کی دم توڑتی حکومت کو سہارا دینے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کی یہ کوشش کامیاب کرنے میں اشرف غنی نے افغان امن کانفرنس کو ملتوی کر دیا جس میں طالبان کے وفد کی قیادت بھی مدعو تھی اس حقیقت سے انکار نہیں کہ افغانستان میں حالات خراب ہونے سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوتا ہے.

گزشتہ 15سالوں میں پاکستان میں دہشتگردی سے 70 ہزار سے زیادہ افراد شہید ہوئے اور کسی بھی ملک نے پرائی جنگ میں اتنی زیادہ قربانیاں نہیں دیں جتنی پاکستان نے ہمسایہ ہونے کے ناطے دی ہیں اسی زمر میں پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی ہے اور آیندہ بھی کرتا رہے گا پاکستان ہمیشہ امن چاہتا ہے اور امن کے قیام کے لیے کوشاں رہے گا انشاء اللہ اُمید ہے افغانستان میں اتحادی حکومت کا قیام اور خطے میں امن و امان کی بحالی ممکن ہو سکے لیکن کوئی بھی بات قبل از وقت ہے آنے والے دنوں میں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اور افغان طالبان کس حد تک اپنی پالیسیز میں نرمی پیدا کر کے عوام کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

@IrumWarraich4

Leave a reply