کنٹینر پر پاک فوج کے خلاف تقریر یں کرنے والے مولانا کے امیدوار سے ہارے ہیں،طاہر اشرفی

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان علماء کونسل کے سربراہ علامہ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت پر ہندوستانی عدالت کا فیصلہ قابل مذمت اور افسوسناک ہے، اسلامی اور عالمی دنیا کو ہندوستان کے غیر ہندوؤں کے خلاف مکروہ عزائم کا نوٹس لینا چاہیے،ہندوستان کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر اجتماعات منعقد کرنے سے جبراً روک کر وحشت اور دہشت کی انتہا کی ہے، پاکستان نے کرتار پور راہداری کھول کر خطہ میں امن کا راستہ کھولا ہے، ہندوستان کا تشدد اور پاکستان کا امن پسند عمل دنیا نے دیکھ لیا ہے، امید کرتے ہیں کہ آزادی مارچ پُرامن طریقہ سے ختم ہو جائے گا، افواج پاکستان اور ملک کے سلامتی کے اداروں کے خلاف مہم چلانے والوں کا عوام محاسبہ کرے گی،مولانا اسعد زکریا کو قائم مقام سیکرٹری جنرل نامزد کیا گیا ہے،22 دسمبر کو پاکستان علماء کونسل کے مرکزاور صوبہ پنجاب کے انتخابات فیصل آباد میں ہوں گے،

مولانا فضل الرحمان اپنا انداز بیان تبدیل کریں ورنہ، طاہر اشرفی کی وارننگ

یہ بات چیئرمین پاکستان علماء کونسل اور صدر وفاق المساجد و المدارس پاکستان حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے جامعہ مسجد معاذ بن جبل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی، اس موقع پر مولانا اسعد زکریا، مولانا محمد شفیع قاسمی، مولانا اسید الرحمن سعید، علامہ طاہر الحسن،مولانا محمد اشفاق پتافی،مولانا عمار نذیر بلوچ، مولانا نعمان حاشر، مولانا ابو بکر صابری، مولانا طاہر عقیل اعوان، مولانا حفیظ الرحمن، مولانا الیاس مسلم، مولانا نائب خان، مولانا محمد شہباز، مولانا قاسم قاسمی اور دیگر بھی موجود تھے،

بچوں پر جنسی و جسمانی تشدد کے خلاف طاہر اشرفی میدان میں آ گئے ، بڑا اعلان کر دیا

آزادی مارچ ، کس ملک کے سفارتخانے نے مولانا سے ملنے سے کیا انکار

انہوں نے کہا کہ 9 نومبر کو دنیا نے ہندوستان اور پاکستان کا عمل دیکھا ہے، کرتار پور راہداری سکھ برادری کیلئے کھولی گئی ہے، پاکستان میں اقلیتیں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ محفوظ ہیں، ہندوستان میں سکھ، مسیحی، مسلمان اور خود ہندو برادری غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہے، مقبوضہ کشمیر اور ہندوستان میں غیر ہندوؤں پر ہونے والے مظالم کا نوٹس لینا چاہیے، انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کیلئے اللہ کی ساری زمین سجدہ گاہ ہے، اسلام کے پیغام امن کو تشدد اور انتہا پسندی سے نہیں روکا جا سکتا، ہندوستان کے مسلمانوں نے زمین کا قطع نہ لینے کا اعلان کر کے اسلامی تعلیمات پر عمل کیا ہے،مسلمان ہر جگہ سجدہ کر سکتے ہیں اور ہندوستان کی ہر جگہ اللہ کے کلمہ کی سربلندی کیلئے سجدہ گاہ بنے گی،

آزادی مارچ کا ایک فرد دن میں کتنی روٹیاں کھاتا ہے؟ حیران کن خبر،دل تھام کر پڑھئے

مذاکرات کرنے ہیں تو استعفیٰ لاؤ، استعفیٰ کا بھی مطالبہ اور اداروں کی منتیں بھی، مولانا کا خطاب

انہوں نے کہا کہ کرتار پور راہداری پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، اس کے مثبت اثرات مستقبل میں دیکھے جائیں گے۔ انہوں نے بابری مسجد کے خلاف ہندوستانی عدالت کے فیصلہ کے خلاف 15 نومبر جمعۃ المبارک کو بھرپور احتجاج کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام کے قائدین کو اس ظلم کے خلاف موثر انداز میں آواز بلند کرنی ہو گی،

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ آزادی مارچ پُر امن طریقہ سے ختم ہو جائے گا، عمران خان ہو یا کوئی بھی، پاکستان علماء کونسل کا موقف واضح ہے کہ دھرنوں سے استعفیٰ نہ آنا چاہیے نہ آئے گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قادیانی اور یہودی نواز فتوؤں اور گالی کی سیاست ختم ہونی چاہیے، افواہ سازی اور کذب بیانی کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے، افواج پاکستان اور ملک کے سلامتی کے ادارے پوری قوم کیلئے محترم ہیں، مولانا کے کنٹینر پر کھڑے ہو کر پاک فوج کے خلاف تقریر یں کرنے والے مولانا کے امیدوار سے ہارے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا مولانا نے فوج کے ساتھ مل کر دھاندلی کی تھی جو وہ ہار گئے اور مولانا کا امیدوار جیت گیا۔

انہوں نے کہا کہ فوج الیکشن میں آئے یا مارشل لاء لگائے فوج کو بلاتے سیاستدان ہی ہیں، الیکشن میں فوج حکومت کے حکم پر آتی ہے اور نگران حکومت کسی جرنیل نے نہیں سیاسی جماعتوں نے بنائی تھی، فوج پر تنقید کرنے والے جنرل ایوب سے مشرف تک جرنیلوں کی حکومتوں کے حصہ دار رہے ہیں، سیاسی جماعتیں خود میثاق کریں کہ انہوں نے رات کی تاریکوں میں فوج کو دعوت نہیں دینی اور دن کے اجالوں میں فوج کے ساتھ شریک اقتدار نہیں ہونا،

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خاتمے کیلئے فوری اقدامات کرے۔

آزادی مارچ کے ڈی چوک جانے پر اعتراض کیوں؟ مولانا فضل الرحمان رو پڑے

ہجوم آگے بڑھا توتمہارے کنٹینرزکوماچس کی ڈبیا کیطرح اٹھا کرپھینک دیگا،مولانا کی دھمکی

واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے شرکاء اسلام آباد میں پشاور موڑ کے قریب جمع ہیں، حکومت اور آزادی مارچ کے درمیان مذاکرات کے بعد جو معاہدہ طے پایا ہے اس کے مطابق آزادی مارچ کے شرکا ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مختص کردہ مقام تک ہی محدود رہیں گے۔

 

مولانا فضل الرحمان کو 13 روز اسلام آباد میں ہو گئے،الیکشن کمیشن آف پاکستان مولانا کو دھاندلی کے الزامات پر جواب دے چکا ہے، پاک فوج کے ترجمان بھی آزادی مارچ پر اپنا موقف سامنے لا چکے ہیں، حکومت کی طرف سے بھی درمیانی راستہ کی تلاش ہے اور اب حکومت سے زیادہ مولانا کو درمیانی راستہ کی تلاش ہے، بلاول اور ن لیگ نے مولانا کو بند گلی میں پھنسا دیا، اگر استعفیٰ کا مطالبہ سامنے رکھ کر مولانا چار برس بھی بیٹھے رہیں تو وہ عمران خان انہیں دینے کو تیار نہیں.

Shares: