پاکستان جیسے زرعی ملک میں گزشتہ حکومت میں غذائی بحران آئے۔ وزیر اعظم

0
44
pm

وزیرِ اعظم شہباز شریف کا گزشتہ پونے چار سالوں میں گندم کے ذخائر کے حوالے سے جامع منصوبہ بندی نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ: یہ بات افسوسناک ہے کہ پاکستان جیسے زرعی ملک میں گزشتہ دورِ حکومت میں غذائی بحران آتے رہے۔

وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ: گندم کی طلب اور ذخائر کیلئے جامع منصوبہ بندی نہ کرکے 22 کروڑ عوام کے ساتھ نا انصافی کی گئی.


انہوں نے کہا: گندم کی آئندہ فصل تک اجراء کے ساتھ ساتھ بفر اسٹاک کو یقینی بنایا جائے گا.

وزیرِ اعظم نے گندم کی درآمد کے دوران معیار اور مقدار کو یقینی بنانے کیلئے بین الاقوامی کنسلٹنٹ سے مدد لینے کی ہدایت کی۔

انہوں نے متعلقہ محکموں کو ہدایات جاری کیں کہ گندم کی خریداری میں جس حد تک ممکن ہو قیمت کو کم کروا کر ملک و قوم کا پیسہ بچایا جائے.

وزیراعظم نے مزید کہا کہ گندم کی خریداری میں جس حد تک ممکن ہو، قیمت کم کروا کر ملک و قوم کا پیسہ بچایا جائے۔

اجلاس میں وفاقی وزرا مفتاح اسماعیل، سید نوید قمر، طارق بشیر چیمہ اور دیگر متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ ملک میں حالیہ گندم کی پیداوار کا تخمینہ 26.389 ملین میٹرک ٹن لگایا گیا ہے جبکہ پچھلے سال کے 1.806 ملین میٹرک ٹن ذخائر موجود ہیں اور  30.79 ملین میٹرک ٹن  کی مجموعی قومی طلب کے مقابلے کل ذخائر 28.199 ملین میٹرک ٹن ہیں۔

 طلب اور ذخائر میں فرق ختم کرنے کے لیے حکومت نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ذریعے بروقت گندم کی درآمد کا فیصلہ کیا۔

فیصلے کے مطابق پہلی کھیپ کے بعد دوسرے ٹینڈر میں وزیرِ اعظم کی ہدایات کی روشنی اور حکومتی کوششوں کے نتیجے میں 300000 میٹرک ٹن پر فی میٹرک ٹن 34.54 ڈالر اور مجموعی طور پر قومی خزانے کا 1 کروڑ 3 لاکھ امریکی ڈالر بچایا گیا۔

اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ حکومت کے روس کے ساتھ معاہدے کے تحت 20 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد پر پیش رفت جاری ہے جو حتمی مراحل میں ہے۔

علاوہ ازیں اجلاس کو گوادر بندرگاہ کے ذریعے گندم کی درآمد پر پیش رفت پر بھی تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔

 وزیرِ اعظم نے ہدایات جاری کیں کہ گندم کی گوادر بندگاہ کے ذریعے درآمد یقینی بنانے کے لیے اقدامات جلد یقینی بنائے جائیں۔

وزیرِ اعظم نے وزراتِ تجارت، وزارتِ فوڈ سیکورٹی اور تمام متعلقہ وزارتوں اور حکام کی ٹینڈر میں فی ٹن لاگت میں کمی کے لیے کوششوں کو سراہا۔

Leave a reply