واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کی پرانی عمارت فروخت کرنے کا فیصلہ.
پاکستان نے امریکا میں اپنے سفارتخانے کی پرانی عمارت کو فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ سفارتخانے کی نئی یا پرانی عمارت کو فروخت کرنے کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ عمارت واشنگٹن ڈی سی کے مرکز میں بہترین لوکیشن پر واقع ہے۔ اس بلڈنگ میں سفارتخانے کا ڈیفنس سیکشن 1950 کی دہائی سے 2000 تک قائم رہا، پاکستانی سفارتخانے کے حکام نے عمارت کو فروخت کرنے کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم عمارت کی فروخت کےلیے طے شدہ طریقہ کار پر عمل کررہے ہیں، سفارتخانے نے عمارت کی فروخت کے لیے اخبار میں اشتہار دیا اور کئی بولیاں بھی موصول ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ عمارت ابھی مارکیٹ میں ہے، اس کی فروخت کا ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ سفارتخانے کا کہنا تھا کہ عمارت کو تزائین و آرائش سے قبل یا بعد میں فروخت کرنے کے حوالے سے ہم تشخیص کار سے رابطے کررہے ہیں کہ عمارت کے لیے کیا بہتر ہے۔ سفارتخانےکے حکام نے بتایا کہ ہم جلد بازی نہیں کررہے، ہم وہ معاہدہ طے نہیں کریں گے جس میں پاکستان کا فائدہ نہ ہو. پاکستانی سفارتخانے کی نئی عمارت سنہ 2000 کے اوائل میں تعمیر ہوئی تھی جبکہ پرانی عمارت بھارتی سفارتخانے کے قریب میساچوئسس ایوینیو میں واقع ہے۔
نئی سفارتخانے کی عمارت کو فروخت کرنے کے حوالے سے کسی نے تجویز نہیں دی تاہم پرانی سفارتخانے کی عمارت اور آر اسٹریٹ عمارت کو فروخت کرنے کی خبریں کچھ دنوں سے زیر گردش ہیں۔ تاہم سفارتخانے نے ان خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پرانی یا نئی عمارت کو فروخت نہیں کیا جارہا۔ محتاط اندازوں کے مطابق سفارخانے نے پرانی عمارت اور سفیر کی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر تقریباً 70 لاکھ ڈالر خرچ کیے تھے۔ اس کے بعد کئی لوگوں نے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا کہ ایک عمارت کی تزئین و آرائش کے لیے اتنی خطیر رقم کیوں خرچ کی گئی۔
تاہم آر اسٹریٹ میں واقع پرانی عمارت کی کبھی تزئین و آرائش نہیں ہوئی اور عمارت کے دورہ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمارت انتہائی خستہ حالت میں ہے، علاقے کے دیگر رہائشی افراد نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے عمارت کی خستہ حالی کے حوالے سے مقامی اتھارٹی کو شکایت درج کروائی ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ عمارت اب علاقے کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ عمارت کی تزئین و آرائش کی جائے یا اسے زمین بوس کردیا جائے ۔ آر اسٹریٹ میں واقع عمارت سفیر سید امجد علی نے سنہ 1953 اور 1956 کے دوران خریدی تھی اور پرانے سفارتخانے کی عمارت کو امریکا میں پاکستان کے پہلے سفیر ایم اے ایچ اصفہانی نے خریدی تھی، دونوں عمارتیں 20 سال سے خالی پڑی ہیں۔
ایک اور سفارتخانے کے ذرائع سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ پرانے سفارتخانے کی عمارت کو فروخت کرنے کا حکومت کا کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ حکومت اسے ثقافتی مرکز بنانا چاہتی ہے۔ سابق پاکستانی سفیر نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ دونوں سفیر جلیل عباس جیلانی اور شیری رحمٰن سفارت خانے کی پرانی عمارت کو فروخت کرنے کے قریب پہنچ چکے تھے لیکن میڈیا پر خبر آنے کے بعد حکومت اپنے فیصلے سے دستبردار ہو گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ تمام خالی عمارتوں کو فروخت کردینا چاہیے کیونکہ ایک عرصے سے ان عمارتوں کو اپنے پاس رکھ کر ہم پہلے ہی کافی پیسے ضائع کرچکے ہیں۔
مزید یہ بھی پڑھیں.
امریکی صدر نے ہم جنس پرستوں کی شادی کے بل پر دستخط کر دیئے
زیارت اور وادی تیراہ میں موسم سرما کی پہلی برفباری کے باعث سردی میں اضافہ
اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی تعطیلات کا اعلان
وزارت خزانہ نے پاکستانی سفارت خانوں اور مشن ملازمین کیلیے فنڈز جاری کردیے
آئی ایم ایف پروگرام کی واپسی تک ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلاتا رہے گا، مفتاح اسماعیل
ٹراسنجینڈر بچے مجرمان کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہورہے ہیں. وفاقی شرعی عدالت
بیرون ملک پاکستانی مشنز کی ٹرانزیکشنز میں تاخیر
اسلام آباد میں کرسمس کی اشیاء کے مختلف اسٹال سجادیئے گئے
تاہم انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ یہ سفارتی املاک میں شامل ہے اس لیے پاکستان کو ان عمارتوں کے لیے پراپرٹی ٹیکس ادا نہیں کرنا ہوگا، لیکن خریدار اگر عمارت خریدتا ہے تو اسے ٹیکس ادا کرنا لازمی ہوگا، اسی لیے ہمارے پاس بہت زیادہ آفر نہیں ہیں، اگر ہم نے عمارت کو فروخت کرنے میں مزید تاخیر کی تو مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سفارتخانے کی جانب سے سفارت کار اور دیگر عملے کی ادائیگی نہ کرنے کے حوالے سے ایک اور سفارتی ذرائع نے ان اطلاعات کو مسترد کردیا اور کہا کہ سفارت خانے کا ہر ملازم، چاہے وہ سفارت کار ہو یا نہ ہو، انہیں وقت پر ادائیگیاں کی جارہی ہیں۔