سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ جنسی حراسگی سمیت ہمارے کئی قوانین میں خامیاں موجود ہیں، کیا عدالت بین الاقوامی کنونشنز کے مطابق قانون سازی کی ہدایت کر سکتی ہے؟ اگر عدالت ہدایات دے بھی تو پارلیمان کس حد تک انکی پابند ہوگی؟ وکیل عمران خان خواجہ حارث نے عدالت میں کہا کہ عدالت کئی مقدمات میں پارلیمان کو ہدایات جاری کر چکی ہے، عدالت نے کئی قوانین کی تشریح بین الاقوامی کنونشنز کے تناظر میں کی ہے،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عالمی کنونشن میں نجی افراد کی کرپشن کا بھی تذکرہ ہے،نجی شخصیات میں کنسلٹنٹ، سپلائر اور ٹھیکیدار بھی ہوسکتے ہیں، نجی افراد اور کمپنیاں حکومت کو غلط رپورٹس بھی دے سکتی ہیں، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پنجاب بنک کیس میں بھی نجی افراد پر 9 ارب کی کرپشن کا الزام تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا کسی دوسرے ملک نے عالمی کنونشن کے مطابق کرپشن قانون بنایا ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کسی دوسرے ملک کے کرپشن قانون کا جائزہ نہیں لیا،عالمی کنونشن میں درج جرائم پاکستانی قانون میں شامل تھے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دنیا نے کرپشن کیخلاف عالمی کنونشن 2003 میں جاری کیا، مثبت چیز یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن کیخلاف قانون 1947 سے ہے، کیس کی سماعت 8 نومبر تک ملتوی کردی گئی
تحریک انصاف نے نئی نیب ترامیم کوچیلنج کردیا
نیب ترامیم کیخلاف درخواست،فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کرینگے،چیف جسٹس
سپریم کورٹ مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گی
اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ پلی بارگین کے بعد بھی ملزم کا اعتراف جرم تصور نہیں ہو گا،چیف جسٹس
واضح رہے کہ عمران خان نے موجودہ حکومت کی جانب سے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے ،عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں عمران خان نے استدعا کی تھی کہ سیکشن 14،15، 21، 23 میں ترامیم بھی آئین کے منافی ہیں۔ نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19A, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔








