پنجاب؛ مزدوری کرنے والے ہزاروں بچوں کو اسکول لے جانے والا منصوبہ سیاسی تعصب کی نذر

0
48

پنجاب میں مزدوری کرنے والے ہزاروں بچوں کو اسکول لے جانے والا منصوبہ بھی سیاسی تعصب کی نذر؛ جبکہ اس سے قبل مزدوری کرنے والے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لئے خاندان کو ایک ہزار روپے ماہانہ دیئے جاتے تھے

ورلڈومیٹر ویب سائیٹ کے مطابق پاکستان کی موجودہ کل آبادی 23 کروڑ سے زائد اور یہاں 21.9 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جن کی تعداد 5 کروڑ سے زائد بنتی ہے۔ لیکن قومی و بین الاقوامی سطح پر بچوں کے حقوق کے اداروں کے مطابق بچوں سے مشقت نہیں کرائی جا سکتی۔ وہاڑی کے علاقہ 9 ڈبلیو بی کا رہائشی 12 سالہ فیصل (فرضی نام) بتاتا ہے کہ وہ گزشتہ 3 سال سے شہر میں موجود ایک چائے کے ڈھابے پر کام کرتا ہے اس کا کام مختلف دکانوں اور دفاتر میں چائے پہنچانا اور خالی کپ واپس لانا ہے۔ فیصل کے مطابق اس کی 5 بہنیں ہیں اور اس کے والد ایک حادثہ میں 4 سال پہلے وفات پا گئے تھے۔ فیصل کی دو بڑی بہنیں سلائی کرتی ہیں ایک کالج کی طالبہ ہے اور 2 اسکول جاتی ہیں، وہ روزانہ چائے والے سے 4 سو روپے دیہاڑی لیتا ہے اور چائے پینے والے کسٹمر کبھی کبھار اسے دس بیس روپے بخشش بھی دے دیتے ہیں ۔

فیصل کا کہنا ہے کہ ہم سب مل کر اپنی بہن کی پڑھائی مکمل کروانا چاہتے ہیں اور جب وہ پڑھ لکھ کر افسر بھرتی ہوجائے گی تب وہ اسکول جانا شروع کرے گا۔ علیم (فرضی نام) کی عمر 32 سال ہے اور وہ میڈیسن کے شعبہ سے وابستہ ہے۔ علیم نے بتایا کہ جب وہ دس سال کا تھا تو اسے والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے مزدوری کرنا پڑی لیکن ساتھ ساتھ اس نے اپنی پڑھائی جاری رکھی۔ وہ زندگی میں ایک کامیاب انسان بننا چاہتا تھا اگر وہ پڑھائی کے ساتھ مزدوری نہ کرتا تو ساری زندگی کے لیے مزدور ہی رہتا۔ بچوں سے مشقت کے حوالے سے علیم نے بتایا کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں بچوں کی مشقت کی ممانعت نہیں ہونی چاہیے بلکہ بچوں کے لیے ایسے روزگار کا انتظام کیا جانا چاہیے جس سے وہ چند گھنٹے کام کر کے پیسے بھی کما سکیں اور بعد ازاں اسکول جا کر پڑھائی بھی کر سکیں۔ علیم نے بتایا کہ ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن میں گھر کا سربراہ وفات پا جاتا ہے، چار سے پانچ بچے اس کے زیر کفالت ہوتے ہیں جبکہ اس کی بیوی بھی کم یافتہ ہونے کے باعث کچھ نہیں کر سکتی۔ ایسی صورت میں وہ فیملی کیا کرے۔ کیونکہ سرکاری سطح پر ایسی فیملیز کے لیے کوئی حکمت عملی موجود نہیں۔

پنجاب میں لیبر ڈپارٹمنٹ کے تحت 2014 میں Elimination of Bonded and Child Labor کے نام سے 4 اضلاع بہاولپور، سرگودھا، فیصل آباد اور گجرات میں ایک منصوبہ شروع کیا گیا، جس کے تحت لیبر ڈپارٹمنٹ نے اینٹوں کے بھٹوں پر نان فارمل اسکول قائم کیے ان اسکولوں میں بھٹہ مزدوروں کے بچوں کو 32 ماہ میں پرائمری تک تعلیم دینی تھی۔

2017 میں اس پراجیکٹ کو پنجاب بھر کے 36 اضلاع میں شروع کر دیا گیا، جس کے تحت لیبر ڈپارٹمنٹ مشقت کرنے والے بچوں کی نشاندہی کرتا تھا اور انہیں سرکاری یا نجی اسکول میں داخل کرتا تھا، سرکاری یا نجی اسکول کا تعین بچے کے گھر سے نزدیک ترین اسکول دیکھ کر کیا جاتا تھا جو بچہ اس پراجیکٹ کے تحت نجی اسکول میں داخل ہوتا لیبر ڈپارٹمنٹ ایک بچے کی فیس کے طور پر 550 روپے نجی اسکول کو ادا کرتا تھا۔ اس پراجیکٹ کو پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (پی ایم یو) کی نگرانی میں شروع کیا گیا اس سلسلے میں ضلع سطح پر ڈسٹرکٹ امپلی مینٹیشن یونٹ قائم کیے گئے جو لیبر ڈپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے۔ اس پراجیکٹ کو موثر انداز میں چلانے کے لیے ضلع بھر میں 2 سوشل موبلائیزر بھی بھرتی کیے گئے جن کا کام مقشت کرنے والے بچوں کی نشاندہی اور بعد ازاں سکولوں میں داخلہ کو یقینی بنانا تھا۔ منصوبے کے تحت ضلع بھر میں 402 بچے مشقت کی جگہ سے ہٹا کر اسکولوں میں داخل کرائے گئے جن میں 4 لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ اس پراجیکٹ میں اس وقت مزید تیزی آئی جب اس وقت کی حکومت نے بھٹہ مزدوروں کے بچوں کی تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے گھرانوں کی مالی امداد کے سلسلہ میں خدمت کارڈ جاری کیے جس سے ہر ماہ بچے کے والدین کو ایک ہزار روپے مالی امداد دی جاتی تھی۔

اس حوالے سے خدمت کارڈ بینک آف پنجاب کی جانب سے جاری کیے جاتے اور والدین کو ایک سم بھی دی گئی جس پر ہر ماہ ٹیکسٹ میسج آتا تھا۔ ستمبر 2018 تک وہاڑی ضلع میں کل خدمت کارڈ کے لیے 2169 خاندانوں کے کوالیفائی کرنے والے بچوں کی تعداد 4210 تھی۔ ان میں سے 89.75 فیصد کے حساب سے 3788 بچوں کے والدین کو ہر ماہ ایک ہزار روپے امداد دی جاتی رہی، باقی رہ جانے والے 422 کیسز میں ڈبل انٹری، شناختی کارڈ کا مسئلہ، شہر چھوڑ جانا اور نام کی غلطی جیسی دیگر وجوہات شامل ہیں۔ پنجاب بھر میں کوالیفائی کرنے والے بچوں کی تعداد 80 ہزار تھی۔ جیسے ہی ستمبر 2018 میں نئی حکومت نے ذمہ داریاں سنبھالیں تو یہ پراجیکٹ روک دیا گیا۔

مارچ 2022 میں سیکرٹری ایجوکیشن ساؤتھ پنجاب احتشام انور مہار نے اپنے طور پر اسی پراجیکٹ کو صبح نو پروگرام کے نام سے شروع کیا جس کے تحت 23 بچے وہاڑی کے سرکاری اسکول اسلامیہ ہائی اسکول میں داخل ہیں جن کے لیے الگ سے 3 اساتذہ موجود ہیں۔لیبر ڈپارٹمنٹ کے مطابق تحصیل بوریوالا اور میلسی میں جلد شروع کیا جائے گا۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیبر ملک محمد شعبان کا کہنا ہے کہ 2017 سے شروع ہونے والے پراجیکٹ سے بڑے پیمانے پر چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہوا لیکن بد قسمتی سے حکومت کی تبدیلی کے بعد موثر انداز سے نہ چل سکا۔ اگر یہ پراجیکٹ دوبارہ شروع کر دیا جائے تو چائلڈ لیبر میں واضح کمی لائی جا سکتی ہے۔ آئین کے مطابق بچے کی عمر 14 سال مقرر کی گئی ہے اس عمر سے چھوٹے بچے سے مشقت کرانا ممنوع قرار دیا گیا۔ خلاف ورزی پر مجسٹریٹ کو یا متعلقہ تھانے میں اطلاع دی جا سکتی ہے۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر ذکیہ سرور کا کہنا ہے کہ جن بچوں سے مشقت لی جاتی ہے ان کی تعلیم، صحت، نفسیات کے علاوہ خود اعتمادی بھی متاثر ہوتی ہے۔ آج کے بچے آنے والے کل کے لیڈر، ڈاکٹر، انجینئر اور ایڈمنسٹرینٹر ہوں گے ان سے مشقت لینے کا سیدھا مطلب ملک کو مستقبل میں کمزور کرنا ہے۔ سماجی رہنما میاں جہانزیب یوسف بتاتے ہیں کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک اور وہاڑی جیسے پسماندہ علاقے میں چائلڈ لیبر کوئی انوکھی بات نہیں۔ ’’میں چائلد لیبر کے حد درجہ خلاف ہوں لیکن وہ غریب خاندان جن کا کوئی اور سہارا نہیں وہ کہاں جائیں‘‘۔ جہانزیب یوسف نے بتایا کہ ضلع کچہری میں موجود ان کے دفتر میں چند مہمانوں کے آنے پر جب انہوں نے کچھ کھانے کو منگوایا تو ایک 10 سال کا معصوم بچہ پلیٹیں اٹھائے دفتر میں داخل ہوا۔ میں نے اسے بٹھایا اور اسکول جانے پر اکسایا۔ اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ پڑھائی کے لیے رقم نہیں۔ میں نے یقین دلایا کہ تمہاری پڑھائی کےلیے ساکول فیس، یونیفارم، کتابیں سب کا خرچہ میرے ذمے ہے تم صبح سے اسکول جاؤ۔

اگلے روز اس کی والدہ میرے دفتر آگئی اور بولی آپ ہمارے منہ سے نوالہ کیوں چھین رہے ہیں یہ بچہ جس کا والد چند سال پہلے ہمیں چھوڑ کر چلا گیا اور دوسری شادی کر لی، گھر کا واحد کفیل ہے۔ خدا کے لیے ہم پر ظلم نہ کریں ہم بھوکے مر جائیں گے۔ تو میں حیران و پریشان بیٹھا یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ یا تو حکومت کو اس حوالے سے کام کرنا ہو گا کہ ایسی کوئی بھی فیملی جن کا متبادل ذریعہ معاش نہ ہو ان کے لیے وظیفہ مختص کریں یا بچوں کو چند ایک مخصوص قسم کی ملازمت مختصر وقت کے لیے فراہم کی جانی چاہئے۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیبر ڈپارٹمنٹ وہاڑی ملک محمد شعبان نے بتایا کہ بچوں سے مشقت لینے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی جاتی ہے۔ 14 سال سے کم عمر کے بچوں سے کسی بھی قسم کی مشقت لینا جرم ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کی سزا 6 ماہ قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت اور The Punjab Restriction on Employment of Children Act 2016 The Punjab Prohibition of Child Labour at brick kiln Act 2016 کے تحت کارروائیاں کی جاتی ہیں۔آر ٹی آئی کے ذریعے لیبر ڈپارٹمنٹ سے ملنے والے ڈیٹا کے مطابق مارچ سے ستمبر 2022 تک ملتان ڈویژن میں کل 71 مقدمات چائلڈ لیبر کے درج ہوئے جن میں 8 مقدمات وہاڑی کے شامل ہیں جبکہ گزشتہ سال وہاڑی میں 27 مقدمات درج ہوئے۔ رواں سال مقدمات کے اندراج میں واضح کمی کی بڑی وجہ وہاڑی میں موجود 2 ہزار بھٹہ خشت میں سے اکثر کا بند رہنا ہے۔ بھٹہ خشت ایسوسی ایشن کے ممبر شیخ خالد مسعود کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کا واضح اثر کاروبار پر ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ بھٹہ خشت پر کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔

لیبر آفس کے مطابق بھٹہ خشت پر چائلڈ لیبر کی نشاندہی کی صورت میں مقدمہ ناصرف بھٹہ مالک پر ہوتا ہے بلکہ بچے کے والد یا سرپرست کو بھی نامزد کیا جاتا ہے جبکہ عام مارکیٹ میں چائلڈ لیبر کی صورت میں مقدمہ صرف دکان یا کاروبار کے مالک پر ہی درج ہوتا ہے۔ ملک محمد شعبان بتاتے ہیں کہ چائلڈ لیبر کے مقدمات میں بڑی رکاوٹ بچے کے والدین ہوتے ہیں کیونکہ جب بھی چائلڈ لیبر کے خلاف کاروائی کی جا تی ہے تب یا تو والدین بچے کا زائد العمر ’ب‘ فارم پیش کر دیتے ہیں یا لیبر ڈپارٹمنٹ کے سامنے سے بچے کی مشقت سے انکار کر دیتے ہیں۔ چائلڈ لیبر کے مقدمات کی سزا عام طور پر امپلائر کو اس کے حیثیت کے مطابق جرمانہ کی صورت میں دی جاتی ہے حیران کن بات ہے کہ پنجاب بھر میں چائلڈ لیبر کے کسی بھی مجرم کو آج تک جیل کی سزا نہیں سنائی گئی ۔

انہوں نے بتایا کہ بچوں کو مشقت کرانے کے حوالے سے والدین کی ترجیحات بھی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ ایک ہی بھٹے پر کام کرنے والے ایک خاندان کے سب بچے اینٹیں بناتے ہیں جبکہ دوسرے خاندان کے بچے سکول جاتے ہیں اس لیے تعلیم کی اہمیت اور مستقبل بارے آگاہی بہت ضروری ہے تاکہ انہیں یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کہ بچے کو مشقت کے لیے ملازمت پر بھجوایا جائے یا اچھے مستقبل کے لیے سکول روانہ کیا جائے۔ سینئر قانون دان راؤ شیراز رضا سے جب اس حوالے سے بات چیت کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے تو یہ بچے کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اس کے علاوہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے اور یہیں سے بچوں پر تشدد کے واقعات جنم لیتے ہیں اور بات یہیں تک محدود نہیں رہتی بلکہ بچوں سے بدفعلی جیسے انسانیت سوز واقعات کا موجب بھی ایسی صورت حال بنتی ہے کیونکہ مشقت کرنے والے بچوں کو عام طور پر لاوارث سمجھا جاتا ہے اور معاشرے میں موجود نفسیاتی مریض انہیں آسانی سے اپنی ہوس کا نشانہ بنا سکتے ہیں راؤ شیراز رضا کا کہنا تھا کہ بچوں میں جرائم کی طرف رغبت کی بڑی وجوہات میں چائلڈ لیبر بھی شامل ہے۔ اگر معاشرے میں جرائم کی شرح کو کم کرنا ہے تو ہمیں یا تو چائلڈ لیبر کو مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا یا پھر اسے ریگولیٹ کیا جانا چاہئے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں چائلڈ لیبر کو ختم کرنا انتہائی مشکل نظر آتا ہے۔ اگر حکومت چائلڈ لیبر کو مکمل طور پر ختم کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں دیگر کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ خودکشیوں کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ اگر حکومت کی جانب سے بچوں سے مقشت کے قانون پر 100 فیصد عمل درآمد کروا دیا جاتا ہے تو بہت سے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو جائیں گے اور بات خود کشیوں تک پہنچ سکتی ہے۔ وہاڑی سمیت پنجاب کے دیگر اضلاع میں چائلڈ لیبر کا تناسب رپورٹ ہونے والے مقدمات سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ مالکان کی چشم پوشی، بچوں کی ملازمت کا ڈاکومنٹڈ نہ ہونا، بے تحاشا غربت، والدین کا لالچ جیسے بہت سے عوام ایسے ہیں جس کی وجہ سے اس فعل کو چھپایا جاتا ہے۔ اس کے بچائے اگر چائلڈ لیبر کو ریگولیٹ کر دیا جائے یعنی بچوں کو مخصوص اوقات کے دوران مخصوص قسم کی آسان مشقت کی اجازت دے دی جائے جس کے ساتھ انہیں تعلیم جاری رکھنے میں بھی آسانی ہو تو کسی طور پر بہتری کے آ سکتی ہے۔

Leave a reply