پٹرول اتنا مہنگا ہو گیا کہ لوگوں نے اپنی گاڑیاں کھڑی کر دی ہیں،سینیٹر تاج حیدر

ایوان بالا ء کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹرمحمد عبدالقادر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود پی ایس او کو نئے پیٹرول پمپس کیلئے لائسنس جاری نہ کرنے، اوگرا سے مختلف سیکٹرز کو گیس کی مقدار کی سپلائی کے تعین کے میکنزم، ایل این جی کی ایمپورٹ اور پرائیویٹ سیکٹرکو اس حوالے سے درپیش چلینجز باشمول سی این جی ایسوسی ایشن و دیگر اسٹیک ہولڈرز کے معاملات کے علاوہ عوامی عرضداشت نمبر 4750برائے پی پی ایل کی جانب سے معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزیر پیٹرولیم اور سیکرٹری وزارت پیٹرولیم کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا۔ ممبران کمیٹی نے کہا کہ وہ ملک کے دور افتادہ علاقوں سے آ سکتے ہیں تو وزیر اور سیکرٹری کو بھی آنا چاہیے۔ کچھ سینیٹرزنے وزیر اور سیکرٹری پیٹرولیم کی عدم شرکت پر احتجاجاً کمیٹی اجلاس سے علامتی واک آؤٹ بھی کیا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ گیس اور پیٹرولیم کے حوالے سے متعلقہ سیکٹرز کے لوگوں کوبلایا ہے تاکہ وہ اپنے مسائل بارے آگاہ کر سکیں۔ملک میں بجلی اور گیس کا سرکلر ڈیٹ بہت بڑھ چکا ہے اور دونوں شعبے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس 1100 ارب روپے کی بجلی کی مد میں سبسڈی دی گئی اور اس سال جو تخمینہ لگایا گیا ہے وہ 2000 ارب روپے کی سبسڈی کا ہے۔سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ پٹرول اتنا مہنگا ہو گیا کہ لوگوں نے اپنی گاڑیاں کھڑی کر دی ہیں۔ یہی حال گیس کا ہے 30 فیصد گیس پائپ لائنوں میں لیکج سے ضائع ہو رہی موثر اقدامات اٹھانے سے بہتری آ سکتی ہے۔

قائمہ کمیٹی کو سی این جی ایسوسی ایشن کے سربراہ غیاث پراچہ، کراچی چیمبر کے محمد جاوید، زبیر موتی والا، چھوٹی انڈسٹری کے نمائندہ رحمان جاوید نے سی این جی کے حوالے سے درپیش مسائل کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا۔ چیئرمین سی این جی ایسوسی ایشن غیاث پراچہ نے کہا کہ پنجاب میں سی این جی قلت کے باعث سات دسمبر سے سی این جی اسٹیشنز بند پڑ ے ہیں۔گیس کی طلب 12 سو مکعب ملین کیوبک فیٹ ہے اور شارٹ فال چار سے چھ سو مکعب ملین کیوبک فٹ ہے۔انہوں نے کہاکہ 2002 میں گیس کی ترجیح بندی کی گئی تھی۔2015 میں ایک پالیسی بنائی گئی کہ سی این جی اسٹیشنز کو قدرتی گیس نہیں دی جائے گی۔2017 میں اوگرا نے لائسنس دیا کہ پرائیوٹ سیکٹر اپنے وسائل سے گیس منگوا کر فروخت کریں بعد میں وہ بھی روک دیا گیا۔ اگر ہمیں اجازت مل جائے تو گاڑیوں کا 53 فیصد کرایہ کم ہو سکتا ہے۔ سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ جنہوں نے عملدرآمد نہیں کیا انہیں سامنے لایا جائے اور عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔

کراچی چیمبر کے محمد جاوید نے کمیٹی کو بتایا کہ وہ گزشتہ 25سالوں سے پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کو بریف کر رہے ہیں ہر چیز کا فیصلہ وزارت نے ہی کرنا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ گیس کے ڈومیسٹک ایک کروڑ کنکشنزہیں یہ دیکھاجائے کہ سبسڈی کس سیکٹر کوملتی ہے اور حکومت کو فائدہ کس سے ہوتا ہے۔ فرٹیلائز کو بھی سبسڈی پر گیس دی جاتی ہے اور باقی بڑی انڈسٹری سے کتنا فائدہ حکومت کو ملتا ہے۔ اگر گیس کایہ حال رہا تو بڑی صنعت بند ہوجائے گی اور وہ بنک کرپٹ ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ لائن لاسسزکی تفصیلات بھی اوگرا سے پوچھی جائے۔ اگر ایکسپورٹرز کو گیس کی سپلائی مل جائے تو ایکسپورٹ میں نمایاں بہتری ہو سکتی ہے۔

معروف بزنس مین زبیر موتی والا نے بھی قائمہ کمیٹی کو آن لائن مسائل بارے تفصیلی آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ گیس کے حوالے سے انٹر نیشنل ٹینڈرنگ ہونی چاہیے۔مختصر، درمیانی اور طویل المدتی منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔ نئے گیس کے ذخائز دریافت کرنے چاہیں 300 نئی صنعتیں گیس کے انتظار میں ہیں اگر گیس مل جائے تو بہتری ممکن ہو سکتی ہے۔چھوٹی انڈسٹری کے نمائندے رحمان جاوید نے کہا کہ ملک میں چھوٹی انڈسٹری گیس کی قلت کی وجہ سے تباہی کی طرف جارہی ہے۔ چھوٹی انڈسٹری زیادہ تر بجلی پر چل رہی ہے۔ہمیں خود بجلی پیدا کرنے اور استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔

کمیٹی کو وزارت پیٹرولیم حکام نے بتایا کہا ملک میں سستی گیس کیلئے 75 فیصد لانگ ٹرم منصوبہ بندی ہے۔ دنیا بھر میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔حکومت فیصلہ کرتی ہے کہ کس سیکٹر کو کتنی گیس فراہم کی جائے۔ گیس ایمپورٹ کیلئے چار دفعہ پراسس کیا گیا مگر کوئی بھی پارٹی قانونی تقاضوں پر پوری نہ اتر سکی۔غیاث پراچہ نے کہا کہ ہمارے ساتھ جو معاہدے کیے گئے سوئی سدرن کمپنی کا بورڈ ان کی منظوری نہیں دیتا۔معاہدے پر عملدرآمد کرایا جائے۔سوئی سدرن گیس کمپنی کے ایم ڈی نے کہاکہ جو مسائل غیاث پراچہ نے بتائے ہیں ان کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہماری ہمدردی ان کے ساتھ ہے اضافی اسٹرکچر بنانا ہوگا۔ اتنی کپیسٹی نہیں ہے کہ سب کیلئے گیس فراہم کی جا سکے۔2016 میں 1200 ایم ایف سی ایف کی کپیسٹی تھی جو آج 670 پر آگئی ہے۔

نوجوان جوڑے پر تشدد کرنیوالے ملزم عثمان مرزا کے بارے میں اہم انکشافات

بنی گالہ کے کتوں سے کھیلنے والی "فرح”رات کے اندھیرے میں برقع پہن کر ہوئی فرار

ہمیں چائے کے ساتھ کبھی بسکٹ بھی نہ کھلائے اورفرح گجر کو جو دل چاہا

فرح خان کتنی جائیدادوں کی مالک ہیں؟ تہلکہ خیز تفصیلات سامنے آ گئیں

بنی گالہ میں کتے سے کھیلنے والی فرح کا اصل نام کیا؟ بھاگنے کی تصویر بھی وائرل

چیئرمین اوگرا نے کہا کہ مسائل کا بیٹھ کر حل نکالنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بھی ایک اوپن پالیسی بنائی تھی اس پیٹرن کو مد نظر رکھاجاسکتا ہے۔جب تک دو ٹرمینل نہیں لگتے تب تک سی این جی ایسوسی ایشن کو 200 ایم ایم سی ایف گیس استعمال کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ سمال بزنس کے نمائندے نے کہاکہ کراچی میں کمپریسر مافیہ ختم کرنے سے بھی بہت سے مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔کمیٹی کو بتایا گیاکہ آر این جی اور قدرتی گیس کے حوالے سے پرائسنگ کے میکنزم پر حکومت کام کر رہی ہے۔

ایڈیشنل سیکرٹری وزارت پیٹرولیم نے کہاکہ وہ تمام متعلقہ سیکٹرز جن کو گیس کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے وہ تحریری طور پر مسائل پیش کریں مل کر ان کا حل نکالا جائے گا۔جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ کچھ صنعتوں کو 4750 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو دی جارہی ہے اور کسی انڈسٹری کو 800 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اور کسی کو 1200 روپے دی جا رہی ہے۔ ان چیزوں کو ختم ہونا چاہیے معاملات کی بہتری کیلئے یکساں پالیسی اختیار کرنی چاہیے جو وقت کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس سے بے شمار لوگوں کا استحصال ہوتا ہے اور لوگوں میں منفی تاثرات پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ادارے جو کیپٹیو پاورسستی گیس سے پیدا کر رہے وہ فروخت کر تے ہیں اس کو بھی ٹھیک کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اس کا مناسب ریٹ متعین ہونا چاہیے۔ بہتریہی ہے کہ وہ ایکسپورٹرز یا مقامی صنعت کو گیس فروخت کریں تاکہ ملک و قوم کا فائدہ ہو۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود پی ایس او کو نئے پیٹرول پمپس کیلئے لائسنس جاری نہ کرنے کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت پیٹرولیم نے کہا کہ اوگرا نے جو پیڑول پمپ لگانے کا پی ایس او کو کوٹہ دیا ہے پی ایس او نے 358 پہلے ہی سے زیادہ پیٹرول پمپس قائم کررکھے ہیں۔اب یہ سٹوریج کپیسٹی میں اضافہ کر یں یا پرانے پیٹرول پمپس کو ختم کر کے نئے کا لائسنس حاصل کرسکتے ہیں۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ جن کو این او سی دے دیا گیا ہے ان کے مسائل کو حل کریں تاکہ وہ لوگ متاثر نہ ہوں وہ آئل ریفائنریز جوبہت زیادہ منافع لے رہی ہیں ان کاجائزہ لیا جائے۔سینیٹر پرنس احمد عمر احمد زئی نے کہا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی سے بلوچوں اور سندھیوں کو فارغ کیا جارہا ہے یہ معاملہ قومی اسمبلی میں بھی اٹھایا گیا ہے۔ جس پر ایم ڈی سوئی سدرن نے کہا کہ ایک سال پہلے کچھ لوگوں کو نکالا گیا تھا اب نہیں نکال رہے۔ جس پر سینیٹر پرنس احمد عمر نے کہا جن 9 لوگوں کونکالا گیا ہے اس سے کمپنی کو کتنا فرق پڑے گا اس کی رپورٹ کمیٹی کو فراہم کی جائے۔

عوامی عرضداشت نمبر 4750برائے پی پی ایل کی جانب سے معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔سینیٹر سرفراز احمد بگٹی نے کہاکہ کمپنی نے ڈیرہ بگٹی میں جو معاہدہ کیا تھا اس پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا اور نہ ہی مقامی لوگوں کو معاہدے کے مطابق روزگار فراہم کیاجارہا ہے۔ صرف 15 ڈپلومہ ہولڈرز اور 10 انجینئرز لگائے گئے ہیں جس پر قائمہ کمیٹی نے ہدایت کی کہ وہ امیدوار جو ویٹنگ لسٹ میں ہیں ان کو کمپنی فوری طور پر لگائے اور معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔

قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز فدا محمد، سرفراز احمد بگٹی، انجینئر رخسانہ زبیری، افنان اللہ خان، پرنس احمد عمر احمد زئی،سعدیہ عباسی،عطاالرحمن، شمیم آفریدی، دنیش کمار، تاج حیدراور حاجی ہدایت اللہ کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری پیٹرولیم،چیئرمین اوگرا، ایم ڈی سوئی سدرن، ایم ڈی سوئی نادرن، جی ایم پی پی ایل، ای ڈی اوگرا،سی این جی ایسوسی ایشن کے سربراہ غیاث پراچہ، کراچی چیمبر کے محمد جاوید، زبیر موتی والا، چھوٹی انڈسٹری کے نمائندہ رحمان جاوید و دیگر نے شرکت کی۔

Comments are closed.