مزید دیکھیں

مقبول

اوچ شریف: 10 سالہ بچہ تالاب میں ڈوب کر جاں بحق

اوچ شریف،باغی ٹی وی(نامہ نگارحبیب خان) چنی گوٹھ روڈ...

سیالکوٹ پولیس کی ماہ فروری میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف مؤثر کارروائیاں

سیالکوٹ،باغی ٹی وی (بیوروچیف شاہدریاض) پولیس نے ماہ فروری...

"علی گڑھ یونیورسٹی کا مایہ ناز اسکالر بطور مجاہد کمانڈر” تحریر: محمد عبداللہ

کشمیر کی حسین وادی لولاب کے ایک گاؤں کا رہائشی منان وانی جو ایک کالج لیکچرار بشیر وانی کے گھر میں پیدا ہونے ہوا اور پروان چڑھا. تعلیمی مدارج کو طے کرتا ہوا علی گڑھ یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے لیے ریسرچ کر رہا تھا. وہ تھا تو سائنس کا طالب علم لیکن کشمیر کی صورتحال اور بھارتی افواج کے مظالم نے اس کو شعلہ جوالا بنا دیا تھا اور اس نے تقریر و تحریر کے ذریعے بھارتی افواج کے کشمیر پر ظالمانہ قبضے کے خلاف جہاد شروع کردیا. شاندار تعلیمی ریکارڈ اور مختلف ادبی ایوارڈ رکھنے والے اس منان وانی نے جب دیکھا کہ اس کی تقریر و تحریر خاطر خواہ نتائج نہیں دے رہی اور بھارتی افواج کے مظالم روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں تو علی گڑھ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے اس اسکالر نے اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑا اور باقاعدہ طور گن اٹھاکر کشمیری مجاہدین کی صفوں میں شامل ہوگیا. اپنی ممتاز حیثیت اور شخصیت کی بنا پر کشمیری حریت پسندوں کی تنظیم حزب المجاہدین کا مقامی کمانڈر بنا اور بھارتی افواج کو بزور قوت سبق سکھانے لگا. کشمیر کی آزادی کی اس جنگ میں وہ مسلسل بھارتی مسلح افواج کے مقابل برسر پیکار رہا اور بالآخر گیارہ اکتوبر دو ہزار اٹھارہ کو ہندواڑہ میں ایک جنگل میں بھارتی افواج کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش. تین جنوری دو ہزار اٹھارہ سے گیارہ اکتوبر دو ہزار اٹھارہ تک کے اس نو ماہ اور نو دن کے مسلح جدو جہد آزادی کے اس سفر میں منان وانی شہید نے بھارتی افواج کو تگنی کا ناچ نچائے رکھا.
منان وانی کی شہادت پر اس وقت کی کٹھ پتلی حکومت بھی چپ نہ رہ سکی اور اس شہادت کو قومی نقصان قرار دیا. کپواڑہ کے رکن اسمبلی انجنئیر رشید نے منان وانی کی شہادت پر اپنے ردعمل میں کہا :’منان کی قلم بندوق سے خاموش کردی گئی، اور اس طرح نئی دلی نے منان کے قیمتی افکار کے آگے سرینڈر کردیا۔’
منان وانی شہید نے دو خط لکھے جو کشمیر کے مقدمے کی سی حیثیت رکھتے ہیں. اس میں سے ایک خط کے مندرجات ملاحضہ کریں.

"عمران خان کی اقوام متحدہ میں تقریر کا اک انتہائی اہم پہلو” !!! تحریر محمد عبداللہ

غیر قانونی تسلط کو سمجھنا اتنا آسان نہیں،یہ ایک پیچیدہ اور کثیرالجہتی رجحان ہے۔ دہائیوں پہ محیط،طویل خون ریزتنازعہ نے کشمیری قوم کو اقوام عالم میں سیاسی لحاظ سے، سب سے زیادہ مدبر اقوام کی صف میں لاکھڑا کردیا ہے۔
وقت کے ساتھ ہم سب نے کسی حد تک اس غیرقانونی تسلط کے پیچیدہ طر یق کار،ساخت اور مشینری کو سمجھ لیا ہے۔بھارت بحیثیت نو آبادیاتی ریاست،آہستہ آہستہ مگر مسلسل کشمیر میں اپنی نوآبادیاتی حکمرانی کو جواز فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہورہی ہے۔مگر،غیر قانونی تسلط سرطان کی طرح ہوتا ہے، اس لئے بحیثیت قوم اور سماج ہمارے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم بھارتی نوآبادیاتی ریاست کی عسکری، ذہنی اور سیاسی شاطرانہ چالوں سے باخبر رہیں۔ ممکن ہے آپ حیرت زدہ ہوں گے کہ اس شخص نے قلم کے بجائے بندوق کوچن لیا، کیوں؟ لکھنے کا فیصلہ کیا۔ہاں چند ایسی چیزیں ہیں جنہوں نے میرے لئے خاموش رہنا سخت مشکل بنا دیا۔
سادہ لوح، بھولے بھالے لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیل کر غداروں نے آج کل حقائق کو توڑ مروڑ کرپیش کرکے اندھیرا کیاہے تاکہ وہ بھارت کے غیر قانونی تسلط، جبری قبضے اور ظلم و جبر کو سند جواز فراہم کریں۔
حقوق البشر کے محافظین تجارتی دیو بن چکے ہیں۔ انہوں نے اس تنازعہ کو ظلم وجبر سے دبائے گئے لوگوں کے دکھ اور درد کو نمایاں کرکے تجارت کا ذریعہ بنادیا ہے۔ اس تمام فعالیت اور سرگرمیوں کو براہ راست دہلی کے مصور خانوں سے ہدایات جاری ہوتی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو سے بیرون ممالک کشمیریوں کی زندگی کیسے اجیرن ہوگئی ہے!!! تحریر: محمد عبداللہ
پرنٹ میڈیا سے لیکر الیکٹرانک میڈیا تک، ہر ایک، چاہے وہ ظالم ہے یا مظلوم، اس نے ہمیں آڑھے ہاتھوں لینے، لتاڑنے یا سرزنش کرنے کے لیے چنا ہے۔ چاہئے ہمارا راستہ اور طریقہ کار ہو، نظریات اور خیالات ہوں، وہ ہمیں بدروح، شیطانی صفت انسان ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
تیسرا نکتہ جس نے مجھے خاموشی توڑنے پر مجبور کیا وہ یہ ہے، وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں جبراًبندوق کے بجائے امن کی شاخ زیتون تھما دی گئی، تاکہ مزاحمت کے پرامن طریقوں کا ڈھنڈورا پیٹا جائے۔ جب انہوں نے اپنی سوچ اور منطق کے مطابق ہمارے مزاحمتی طریقہ کار کو جواز فراہم کیا،حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ہمیں اور ہمارے نظریات کو رد کیا۔
اور بالآخر جب ایک پولیس اہلکار جو کہ بعد میں انسانی حقوق کا محافظ بنا، جس نے اپنے دور میں بیکارانہ طریقے سے لوگوں کی جائز خواہشات کو کچلنے کی کوشش کی اب بددلانہ اور غیر منطقی دلائل کے ذریعے سے انسانیت اور اعتدال پسندی کا مبلغ بننے کی کوشش کررہا ہے۔ ایسی صورتحال میں جواب دینا لازم بنتا ہے۔ یوں مجھ جیسے شخص(جس کے پاس وسائل ہیں نہ متذکرہ بالا لوگوں کی طرح آرام و آسائش ہے) جس نے پہلے ہی قلم کے بجائے بندوق کو چنا ہے، کے لیے اُسی زبان میں جواب دینا لازم بنتا ہے، تاکہ ہم اپنے نکتہ نظر کو پیش کرسکیں۔
میرا ماننا ہے کہ یہ بے حد ضروری ہے کوئی اندر کا واقف کار بھی اپنا نکتہ نظر سامنے رکھے تاکہ حقائق مسخ نہ ہوں۔ میں جبری قبضے کی طویل تاریخ میں نہیں جاؤ ں گا، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ہم میں سے ہر ایک جبری قبضے سے متعلق بخوبی آگاہ ہے، کیسے شروع ہوا،وجوہات کیا تھیں اور اس کے اثرات کیا ہیں۔ مزاحمت کا نیا دور 2008 کے تلاطم کے بعد شروع ہوا، تب سے مزاحمت کے طریقے سختی سے اور مثبت انداز میں تبدیل ہوئے۔ مزاحمت کے طریقوں میں تبدیلی کے ساتھ ظلم و زیادتی کے ہتھکنڈوں نے بھی نشود نما پائی۔
امریکہ کی جنگ میں شامل ہونا پاکستان کی غلطی، کیا نئے پاکستان کا بیانیہ بھی نیا ہوگا؟؟؟ تحریر: محمد عبداللہ
بھارت کو اس بات کا شدید احساس ہوا کہ وہ اب کشمیریوں کو زیادہ دیر بڑے بوٹوں کی غلامی تلے خاموش رکھ سکیں گے اور نہ ہی اپنے غیر قانونی قبضے کو جواز فراہم کرسکتے ہیں۔ اس لیے بھارت جان بوجھ کر کشمیر کے تاریخی اور سیاسی حقائق کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔
ہر دن، ہروقت، نئے مکالے، تذکرے، مباحثے اور خیالات کو میڈیا میں مختلف افراد اور ایجنسیوں کے ذیعے پھیلایا جارہا ہے۔ بھارت بہت ہوشیاری اور چالاکی سے ایک ایسے بیانیہ کی صنعتکاری سے لوگوں کو الجھائے،پریشان کرنا چاہتے ہیں، جو فوج کی موجودگی اور ظلم و جور کے ہتھکنڈوں کے موافق ہو اورریاست جموں کشمیر کی آبادی کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال ہو۔ بعض افراد کو طاقت ور اور وسائل سے بھرپور مقام اس لئے تفویض کئے گئے، کہ وہ ایسے بے محل اور غیرمتعلق بیانیہ، مقالہ جات سامنے لائیں، جسے لوگوں کو بیوقوف بنایا جائے اور پرانے، حقیقی اور اصل بیانیہ فرسودہ اور بے جوڑ لگے۔
ایک دن ایک بیوروکریٹ (سرکاری ملازم) لکھتا ہے کہ "صرف بھارت ہی کشمیریوں کے پاس ایک معقول دانشمندانہ انتخاب وچناو ہے” اور دوسرے دن ایک سیاستدان نے سوال کیا "کیوں عسکریت پسند موت کو گلے لگانے میں عظمت و وقار محسوس کرتے ہیں؟” میں یہاں کوشش کروں گا کہ ان مبہم دلائل کو مسمار کرکے ان کے پیچھے چھپی منافقت کو بے نقاب کروں۔ "ہم سپاہی ہیں، ہم مرنے کے لیے نہیں، بلکہ جیتنے، سرخ رو ہونے کے لیے لڑتے ہیں۔ موت کے بجائے ہم بھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف سینہ سپر ہونے میں عظمت و وقار محسوس کرتے ہیں۔ بھارتی عسکری طاقت، ظلم و جبر، استبداد، بھارت کے ہم کاریوں اور سب سے بڑھ کر اُس کے غرور اور گھمنڈ، جب ہم اس تمام کے خلاف لڑتے ہوئے جاں کی بازی ہار جاتے ہیں، تو ایسی جانثاری پر ہم عظمت و وقار محسوس کرتے ہیں۔” ہم سے میرا مطلب تمام کشمیری اور کشمیری سے میرا مطلب ریاست جموں کشمیر کے وہ تمام شہری جوبھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف کسی نہ کسی طریقے سے برسر جدوجہد ہیں، نہ کہ صرف وہ جو بندوق بردار ہیں۔
کیا سوشل میڈیا پوسٹس اور ٹویٹر ٹرینڈز سے کشمیر آزاد ہوجائے گا؟؟؟ تحریر: محمد عبداللہ
ایک اُستاد، چاہئے وہ سکول، کالج یا جامعہ کا ہو، جو ایمان داری اوردیانت داری کے ساتھ بچوں کو تعلیم دیتا ہے یا ایک ڈاکٹر جو ہر وقت اپنے مریضوں کے ساتھ نیک دلی اور ہمدردی کا برتاؤکرتا ہے۔ ایک طالب علم جو آبرومندانہ طریقے سے غیرقانونی قبضے کے نتیجے میں ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف احتجاج کرتا ہے یا ایک سنگباز جو قابض افواج کی جانب پتھر پھینکتا ہے جبکہ بدلے میں اُسے گولیاں سہنی پڑتی ہیں۔ ایک کالم نویس، تبصرہ نگارجو بے خوف ہوکے لکھتا ہے یا ایک صحافی جو موقع پہ حقائق کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ وہ شخص جو غیر قانونی قبضے، تسلط کے خلاف فقط بولتا ہی ہے یا ایک وکیل جو عدالت میں قانونی جنگ لڑتا ہے۔ ایک سرکاری ملازم جو اپنے فرائض منصبی اخلاص کے ساتھ انجام دیتا ہے یا وہ پولیس والا جو لوگوں کو (قتل کرنے، دہشت زدہ کرنے، معذور کرنے اور مقامی لوگوں پر تشدد کرنے) کے بغیر فقط امن و امان قائم رکھنے کی اپنی اصل ذمہ داری انجام دیتا ہے۔ہم سب مزاحمتی سپاہی ہیں۔
مزاحمت میں خلیج اور سوسائٹی کے حصے بخرے کرنے کی غرض سے نئی شناختیں اور تقسیم پیدا کی جارہی ہے۔2016سے پہلے بھارت کے خلاف تلا طم کو دانستہ طور صرف شہراور قصبوں کے ساتھ منسلک کیا گیا تھااور عسکریت کے متعلق کہا گیا تھا کہ یہ چند ان پڑھ،بھٹکے ہوئے دیہی لڑکوں کی کاروائی ہے۔اب احتجاجوں کوجنوبی کشمیرکے دیہاتیوں،(جنہیں معیشت کی کوئی سوج بوجھ نہیں) کے ساتھ منسلک کیا جاتاہے۔ اگرچہ لوگوں نے ایسے بیانیہ کو،مزاحمتی تحریک کے تئیں بھرپور حمایت دکھا کر بارہا مسترد کیا ہے۔
ہمیں اس امر سے خبردار اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے کہ کیسے بھارتی تسلط لوگوں کو احمقانہ گفتگو کے ذریعے ایک دوسرے سے جداکرتے ہیں۔ کبھی ذیلی علاقائی (نارتھ اور ساؤتھ) اورکبھی فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر کشمیر کی تحریک آزادی کے خلاف دونوں، سماجی اور الیکٹرانک میڈیا پر ایک سخت مضبوط مہم جاری ہے۔ وہ لوگ جو غیرقانونی قبضے، تسلط کے خلاف برسر پیکار ہیں اُنہیں متعصب،جنونی، بنیادپرست اور اُن کا پسندیدہ لفظ دہشت گرد کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اس مہم کے پیچھے جو لوگ ہیں وہ بخوبی حقائق سے آ گاہ ہیں مگر لوگوں کو بیوقوف بنانے کا یہ وہ کام ہے جو اُنہیں سپرد کیا گیا ہے۔
بارہویں کلاس کے لیے بھارتی NCERT کی پولیٹکل سائنس کی نصابی کتاب "دہشت گرد” کی یوں تعریف کرتی ہے "جو کوئی بھی،کسی شہری کو اپنے مطالبات منوانے کے لیے اندھادھند نشانہ بناتا ہے ” دہشت گرد کی اس تعریف سے ایک انسان واضح طور پر یہ سمجھ سکتا ہے کون دہشت گرد ہونے کے قابل اور اہل ہے۔ جب سے ہماری کاروائیوں سے ہر ایک باخبر ہے۔ بھارت کے برعکس ہم عام شہریوں،چاہئے وہ کشمیری ہو یا بھارتی،اور غیر محارب قتل نہیں کرتے۔وہ لوگ جو ہمیں دہشت گر د کہہ کر پکارتے ہیں ٹیکسٹ بک کو تبدیل کریں یااپنے علم بدیع و معانی کو۔
مسئلہ کشمیر فقط زمین کے ٹکڑے کی لڑائی یا کچھ اور؟ ؟؟ محمد عبداللہ
بھارتی حکومت اپنے لوگوں کو یہ سکھاتی ہے کہ کشمیری عسکریت و آزادی پسند ایسے نوجوان لڑکے ہیں جن کے نظریات تبدیل کئے گئے ہیں۔ جو 72حوروں کی لالچ میں عسکریت میں شامل ہوچکے ہیں اور وہ پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اس طرح مر جانے سے وہ سیدھے جنت میں جائیں گے۔ اس میں کوئی انکار نہیں کہ اسلام ہمارے کسی کام کے کرنے کا محرک اور زندگی گزارنے کا طریقہ ہے اور اسلام فی الحقیقت کسی بھی طریقے اور ذرائع سے ظلم و زیادتی کے خلاف لڑنے پر جنت کا وعدہ فرماتا ہے۔ مگر جس طرح میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ ہم سپاہی ہیں، ہم جنگ میں صرف اس لئے نہیں کودے کہ جان دیکر جنت میں چلے جائیں بلکہ دشمن کے خلاف لڑ کر اُسے شکست دینے کے لیے میدان میں آئے ہیں.
ایک مجاہد اپنا سب کچھ قربان کرنے کے باوجود جنت کا دعویٰ،استحقاق یا مطالبہ،نہیں کرسکتا۔جنت اللہ تعالیٰ کے دائرہ اختیار میں ہے اور کسی کے جنتی ہونے کا فیصلہ صرف ان حقائق کی بنیاد پر نہیں ہوگا کہ وہ میدان قتال میں لڑکر جان دے چکا ہے بلکہ جنت میں داخلے کے لیے کثیر معیار ہیں۔اس کے علاوہ،ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے ہیں کہ اسلام خاص طور پر ہم سے تعلق رکھتا ہے،لیکن یہ سچ ہے کہ ان ظالموں کی، مذہب کے نام پرلوگوں کو استعمال کرنے کی طویل ترین تاریخ ہے۔وہ ہمیشہ اسلام کا ایک مخصوص حصہ منتخب کرکے،اُسے اپنی مرضی کا مطلب و معنیٰ اخذ کرکے اپنے جبری قبضے کو جواز بخشنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اکثر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ہم ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں. غیرقانونی قبضے اور تسلط پر عذر خواہی کرنے والے بھارتی فوجی طاقت، کثیر فوج اور میزائل ٹیکنالوجی کی شان و شوکت دکھاتے ہیں۔ ہاتھوں میں زنگ آلود کلاشنکوف لئے چند سو نوجوان لڑکوں اور جدید ہتھیاروں سے لیس دس لاکھ فوج کا آپس میں موزانہ کیا جاتا ہے۔ دنیا کی تازہ ترین فوجی تاریخ، چاہے وہ امریکہ ویت نام میں، یو ایس ایس آر افغانستان میں یا نیٹو افغانستان میں ہو، ہمیں یہ بات سکھاتی ہے کہ جنگیں کثیر فوج اور جدید ہتھیاروں کے بل بوتے پر نہیں جیتی جاتیں۔ کیوں بھارت کو ایک بھاری بجٹ کے ساتھ بارہ لاکھ فوج کی ضرورت پڑتی ہے ان چند مٹھی بھر نوجوانوں سے لڑنے کے لیے؟ ایسے ہر ایک سوال کا جواب یہی ہے کہ بھارت پہلے ہی کشمیرمیں جنگ ہار چکا ہے۔
کیا بھارت کشمیر کو آزاد کرکے پاکستان کی بقاء ممکن بنائے گا؟؟؟ محمد عبداللہ
ایک وقت تھا جب لڑائی ایک بندوق برداراور ہزاروں بھارتی فوجیوں کے درمیان ہوتی تھی لیکن اب ایک مجاہد تک رسائی سے پہلے قابض فورسز کو ہزاروں غیرمسلح آزادی کی جنگ لڑنے والوں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے. وہ لوگ جو فریڈم فائٹر نوجوانوں کی مدد کے لیے اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر انکاونٹرزکی جگہ کا رخ کرتے ہیں، تو اس سے ہمیں لوگوں کے خواہشات اور جذبات کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
کشمیری مجاہدین اور آزادی پسندوں کو دہشت گرد گردان کر اور یہ کہہ کر کہ یہ ایسے نوجوان لڑکے ہیں جن کے نظریات تبدیل کئے گئے ہیں ممکن ہے بھارت اپنے شہریوں اور دنیا کو بیوقوف بنالے مگر بھارت کہاں سے یہ جواز فراہم یا تلاش کرسکتا ہے کہ اُ س کے خلاف لڑنے والی پوری قوم کے نظریات تبدیل کئے گئے ہیں۔ بھارت سراسر مایوسی کی کیفیت میں ہے! ہر رات اُن کی ٹیلی ویژن چینلز پہ یہ عیاں ہوتا ہے۔ بھارتی سرکار کشمیر کے خلاف میڈیا پر نفرت سے بھری، زہریلا، کینہ پرور پرپیگنڈا مہم چلا کر اپنی ناکامیوں کو چھپاتی ہے۔ ایک شخص آسانی سے اندازہ لگاسکتا ہے کہ کس درجہ اور سطح کی مایوسی ہے.
مقبوضہ کشمیرمیں حکومتی خفیہ اداروں کی جانب سے کالجز اور جامعات کے معلموں کی جاسوسی کی جاتی ہے۔ طالب علم مسلسل نگرانی میں رکھے گئے ہیں۔ مقامی میڈیا کو حکماً خاموش کیا گیا ہے۔ قوانین بنائے گئے ہیں جن کی روح سے سرکاری ملازمین سے یہ کہا گیا کہ وہ سرکاری پالیسی (حکمت عملی) کے خلاف تنقید سے احتراز کریں گے۔ کیسے ایک عذر خواہی کرنے والا، جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ریاست جموں کشمیر بھارت کا ایک حصہ ہے، اس بیان کو واضح کرے گا.
اکثر اوقات اس پر بحث و تمحیص کی جاتی ہے کہ ہمیں پرامن ذرائع سے بھارت کے جمہوری ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہئے۔بلاشبہ،طریقہ کار اور کاغذات کی حد تک بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے،مگر عملی بنیادوں پر جمہوریت کے لیے اہل نہیں۔ کیسے آپ ایک ایسی قوم سے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ آپ کی آواز پر کان دھرے، جس کا نام نہاد جمہوری طریقے سے منتخب وزیر اعظم فرقہ وارانہ فسادات کا بنیادی معمار ہو۔ جہاں الیکشن ہی فرقہ وارانہ بنیادوں پر لڑے جاتے ہوں. جہاں آبروریزی کرنے والا، بلاتکاری اور پیشہ ور مجرم ہی قانون بنانے والے ہوں، جہاں ذرائع ابلاغ کو برسراقتدار حکومت ہی چلاتی ہو۔ جہاں ایک نسل کی ہر ایک آواز اور ہر ایک نکتہ چیں، تنقید کرنے والے کو موت کی نیند سلاکر یا کسی اور طریقے سے خاموش کیا جاتا ہے۔جہاں حکومت پر اعتراض کرنے والے ہر شخص کو قوم دشمن قراردیا جاتاہے اور الیکشن کو(Populism) یعنی اشخاص کے انفرادی مفادات کو مدنظر رکھ کر، اور چالاکیوں کی بنیاد پر جیتا جاتا ہے۔ جہاں حکومتی ایجنسیوں کو مخالفوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاں اقلیت کو اپنے وجود کے خطرے کا سامنا ہے، جہاں ہر ایک اختلافی آواز کو پاکستان بھیجنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔جہاں ایک مسلمان کو فقط فریج میں گوشت رکھنے کی پاداش میں دن کی روشنی میں زیر چوب لاکر ہلاک کیا جاتا ہے۔جہاں سر پر ٹوپی رکھنے والا اور برقعے میں ملبوس ہر ایک عورت مشکوک دہشت گرد ہے، جہاں طالب علموں کو سرکاری حکمت عملی کے خلاف احتجاج پر جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔جہاں ماہرین تعلیم اور صحافیوں کومحض اس بنیاد پر قتل کیا جاتا ہے کہ وہ حکومت وقت کے خلاف بولتے اور لکھتے ہیں۔لہٰذا،کشمیر میں کتنے لوگ مرتے ہیں،بھارتی سیاستدانوں کے لیے بھارت میں ووٹ حاصل کرنے والی پالیسی کے سوا کچھ نہیں۔
مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کیلئے میڈیا اور سوشل میڈیا کو استعمال کیا جائے، فخر امام، ڈاکٹر محمد فیصل
ہندوستانی قوم کے اجتماعی ضمیر کے اطمینان کے لیے ایک کشمیری کی لاش کو الیکشن مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے۔فوجی، معصوموں کو گولیوں کا نشانہ بنانے اورخواتین کی آبرو ریزی میں فخر محسوس کرتے ہیں،اور بھارت کے عام عوام کو جنگ جو میڈیاکے بیانیہ کے ذریعے سے اس طرح اور اس حد تک ذہن سازی کی جاتی ہے، جیسے اُنہیں کوئی عقیدہ سکھایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ حقیقت میں اس تمام کی حمایت کرتے ہیں۔یہ صرف کشمیر تک محدود نہیں، جو حالات بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں،نکسلی علاقوں اور سرزمین بھارت کے قبائلی حصوں کے ہیں، ان حالات کے مقابلے میں اچھے نہیں۔ بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں آبروریزی، قتل و غارت گری، ظلم و تشدداور انسانی حقوق کی پامالیاں وہاں بھی بہت عام ہیں۔ مقامی حلیفوں کو استعمال کرکے، افسپا،ڈی اے اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کی پناہ میں جاکر کشمیر میں ہمیشہ جمہوریت کو غیرقانونی قبضے،تسلط کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ شیخ عبداللہ کے وقت سے لیکر ان بھارت نواز سیاستدان کو ہمیشہ بھارتی جبری قبضے اور بھارتی مفادات کے لیے توپ کے ایندھن کے طور استعمال کئے گئے۔ اگر کبھی بھی انہوں نے کوئی مطالبہ کیا یا لوگوں کے حقوق کے لیے لب کشائی کئی تو ان حاشیہ برداروں کو بعد میں ایسے پھینکا گیا جس طرح ٹیشو پیپرکو استعمال کرکے پھینکا جاتا ہے۔
حال ہی میں بھارت نواز جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت کو اس کے اتحادی نے، نام نہاد وزیر اعلیٰ کو بتائے بغیر جس طرح گرادیا،ایک متعلقہ مثال ہے۔ یہ ایک کم تر، مگر کشمیر میں جمہوریت کا ایک اہم،بامعنیٰ مظاہرہ ہے۔ سیاسی محاذ پر، موجودہ گورنمنٹ اپنے سابقین کی مانند متکبرانہ اندازمیں کام کرتی ہے اور مکمل طورپر مخالف انصاف پسند علاقائی آوازوں کو نظر انداز کرکے بھارت کے چپے چپے کو زعفرانی رنگ(ہندتوا) میں رنگنا چاہتے ہیں۔ سرزمین بھارت اور مقبوضہ ریاست جموں کشمیر میں، پہلے سے موجود علٰحیدگی پسند اور آزادی پسند جذبات بالترتیب ان حالات سے شدت اختیار کرتے ہیں۔ یہ چند خیالی اور لفاظانہ دعوے نہیں؛حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ خالصتان تحریک کے احیاء کے ساتھ "دراویدستان ” کے لیے بھی آوازیں اُٹھی ہیں۔ذات پات،جو تاریخی اعتبار سے بھارت کی سب زیادہ گہری فالٹ لائن ہے اب مزید وسیع ہوتی جارہی ہے۔ جب یہ سب چیزیں ہورہی ہیں؛اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت نے تباہ ہونا ہی ہے اور کشمیر کی مزاحمتی تحریک اس سارے عمل کا پیش خیمہ ہے۔
"آٹھ اکتوبر کا زلزلہ اور مقبوضہ کشمیر میں 65 دن کا کرفیو، ہونے کیا جا رہا ہے” تحریر: محمد عبداللہ
موجودہ بھارتی حکومت اپنے ملک کی پوری تاریخی بنیاد کو بگاڑنے اور تبدیل کرنے کے مشن پر ہے اور ایسا کرنے کی کوشش میں وہ جب مسئلہ کشمیر کو اُٹھاتے ہیں تو اپنے متعصبانہ فسطائی سیاسی خیالات کی نظر سے اُٹھاتے ہیں۔ مگر مسئلہ کشمیر کی، سراسر مختلف بنیادیں اور تاریخی سیاق و سباق ہے۔ اکثر ملاحظہ کیا گیا ہے کہ ایک طرف کشمیر کے لوگوں کو چیزیں پیش کی جاتی ہیں کہ وہ کشمیر کی تاریخی اور سیاسی حقیقت کو بھول جائیں اور دوسری طرف اُنہیں ہندوستانی فوجی قوت کی نمود و نمائش کے ذریعے دھمکایا جاتا ہے۔مقامی آبادی کو روزانہ سیز اینڈ سرچ آپریشنز "CASOs” ، جوانوں کی شبانہ گرفتاری، ہر ایک آزادی پسند آواز کو پس دیوار زنداں کرنا، احتجاجیوں پرچھروں اور اشک آور گیس کی بارش کرکے ہر غیر مسلح اور پرامن احتجاج کو محدود کرنا، حقیقی ” ہندوستان کے تصور” اور اُس کی جمہوریت کی ایک چھوٹی سے جھلک ہے۔
کرفیو کے نفاذ کے ذریعے تمام آبادی کو اپنے گھروں میں مقید کرکے،مزاحمت کے پرامن طریقوں کا استقبال ہمیشہ گولیوں،چھروں اور اشک آور گیس سے کرکے کشمیر میں امن کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ ہر ایک قوم ترقی، تعلیم اور دیگر دوسری چیزیں چاہتی ہے مگر اپنی عزت ووقار اور آزادی کی قیمت پر نہیں۔ وہ لوگ احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں جو کھیل کود اور تعلیم کو کشمیر کی تاریخ کے عوض بیچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دنیا کی تاریخ ان حقائق پر شاہد ہے کہ جنگوں میں قوموں کو شکست تو دی گئی لیکن اُنہیں اپنی تاریخ بھولنے پر مجبور نہیں کیا جاسکا۔
یہاں تک کہ اگر کشمیر میں مسلح مزاحمت ختم ہوجاتی ہے،اور بالکل کوئی آزادی کی تحریک نہیں رہتی،لوگ آج نہیں تو کل اپنی حق آزادی کے لیے ایک نئی تحریک شروع کریں گے۔ تاریخی حقائق اور انصاف پر مبنی تحاریک اور خیالات و نظریات،مخصوص افراد کی ملکیت ہوتی ہے نہ اس نمائندگی کرتے ہیں۔چاہئے وہ شخصیات کسی بھی قدوقامت کے کیوں نہ ہوں۔ ایک شخض،چاہئے کتنا ہی بڑا قائد کیوں نہ ہو، (مرد/خاتون)صرف تحریک کا حصہ ہے بذات خود تحریک نہیں۔اگر ایک راہنماکسی بھی بنیادپر اپنے مؤقف کو تبدیل کرکے راہ مفاہمت پہ چل نکلتا ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک ہی خراب اور بدعنوان ہے؟شیخ عبداللہ کشمیر کا سب سے مشہور اور بلند پایہ لیڈر تھا۔ مگر کس چیز نے اُس کی قبر کوبرصغیر کی سب سے زیادہ غیر محفوظ اور پُر حفاظت قبر بنادیا؟ وہ لوگ جو انفرادی شخصیات کو نمایاں،اُجاگر کرکے ہمیں تحریک کی بدعنوانی اور غیر قانونیت دکھانا چاہتے ہیں اُنہیں اس بات پر غور و فکر کرنا چاہئے۔ لوگوں کے لیے صرف وہی لیڈر(مرد/خاتون) مستنداورقابل قبول،جو مسئلہ کشمیر کے حقیقی تاریخی سیاسی بیانیہ کے ساتھ کھڑا، قائم رہے۔حکومت صرف ظلم و زیادتی کی تدابیرکی نشود ونما کرسکتی ہے مگر وہ وقت پر ان پالیسیوں سے اجتناب کرکے تاریخ کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ اس لیے بھارتی قبضے کے لیے عذر خواہی کرنے والوں کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ وہ،ہمیں بحیثیت انسان دیکھیں جو عظمت و وقار کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔مگر، اُنہیں ہمیشہ یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ غیر قانونی قبضے،تسلط کے سایے تلے زندگی گزارنے میں کوئی عظمت و وقار نہیں۔مظلومین کی حیثیت سے ہم پابند ہیں کہ ہم ہر قسم کی ناانصافی،ظلم اور جبر کے خلاف اپنی استطاعت کے مطابق جدوجہد کریں۔ اور غیر قانونی قبضہ، تسلط کے زیر سایہ زندگی گزارنے سے بڑھ کر کون سی ناانصافی، ظلم اور جبر ہوسکتا ہے؟ ہمارے لوگوں کی مزاحمت نے قابضین کو اس حدتک مایوس کردیا،یہاں تک کہ وہ اُن لوگوں کو بھی برداشت نہیں کرسکتے،جو مقامی آ بادی کے غالب بیانیہ کی تائید تک نہیں کرتے۔مثال قائم کرنے کے لیے وہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں،امن کے سفیروں کو بھی پابند سلاسل یا قتل کرتے ہیں، بصورت دیگر جنہوں نے کبھی بھی ناجائز قبضے کے خلاف زبان نہیں کھولی۔ ہمیں اور ہمارے مقاصد کی سرزنش کے لیے مذہبی گفتگو کو سامنے لانے سے مسائل کے حل میں کبھی بھی آسانی پیدا نہیں ہوسکتی۔ ہمیں اس حقیقت کے بارے میں یہ واضح ہونا چاہئے کہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ مذہب جس کی ہم پیروی کرتے ہیں رسومات اور عبادات کاسیٹ کے بجائے ایک نظام زندگی ہے۔ اس لئے ایک انسان کا اپنی سوچ، اصول اور نظریات اسی سسٹم سے اخذ کرنا قدرتی امر ہے۔ دوسرا یہ کہ ہر ایک کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ ظلم وجبر اور جارحیت کے خلاف بندوق اُٹھائے۔ مگر یہ ہر ایک کے لیے فرض ہے کہ وہ ظلم و جبر کے خلاف کھڑا ہوجائے۔ اور آخری بات، بحیثیت مسلم جو ایمان رکھتا ہے کہ اسلام انسانیت کے مکمل نظام حیات ہے، سماجی، اقتصادی اور سیاسی سسٹم کا احاط کرتا ہے، ہماری بھی تمنا ہے کہ اسی سسٹم کی حکمرانی ہو، مگر یہ سسٹم، نظام دھونس اور زور زبردستی کے ساتھ نافذالعمل نہیں لایا گیا، چاہئے حالات کیسے بھی تھے۔ ہمارا مقصد خاص یہ ہے کہ ہم اپنی سرزمین کو بیرونی غیرقانونی تسلط، جارحیت سے آزاد کرنا چاہتے ہیں،اور یوں ہم ایک امن اور انصاف کا ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جہاں ہر ایک سوچ اور نظریہ پہ مباحثہ ہوگااور لوگوں کو یہ حق دیا جائے گا کہ وہ منتخب کریں جو کچھ بھی وہ پسند کریں۔ تاریخ اس حقیقت پر گواہ رہی ہے کہ جہاں بھی لوگوں نے حقیقی آزادی میں زندگی گزاری، اور اسلام کو حق حکمرانی دیا گیا،لوگوں نے نہ صرف اس کو خوش آمدید کہا بلکہ انصاف اور امن کا دوردورہ دیکھا۔ جیسا کہ ایک عظیم انقلابی میکولم ایکس کہتے ہیں؛ ہماری کتاب میں ایسا کچھ بھی نہیں، قرآن ہمیں خاموش ہوکے ظلم و جور برداشت کرنا سکھاتا۔ ہمارا مذہب ہمیں عاقل اور ہوشیار بن کررہنے کی تلقین کرتا ہے۔
(منان وانی، سابق پی ایچ ڈی،سکالر،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔ مجاہد حزب المجاہدین).
ان خطوط نے منان وانی شہید کی شخصیت کا قد مزید بڑا کردیا اور ان کو کشمیر کے ایک وکیل کی سی حیثیت سے متعارف کروادیا ہے. کشمیر کے پوسٹر بوائے کے طور پر مشہور ہونے والے برہان مظفر وانی شہید کے بعد منان وانی شہید کشمیر کے نوجوانوں کے لیے ہیرو بن چکے ہیں اور نوجوان ان کی طرح تعلیمی سلسلے کو ادھورا چھوڑ کر منان وانی شہید کا رستہ اختیار کر رہے.
مصنف کے بارے میں جانیے اور ان کے مزید مضامین پڑھیے

Muhammad Abdullah
Muhammad Abdullah
محمد عبداللہ
محمد عبداللہhttp://www.atozwithabdullah.com
محمد عبداللہ گزشتہ دس سال سے بلاگنگ، کالم نگاری، صحافت اور سوشل میڈیا پر تحریکی اور نظریاتی ایکٹوزم سے وابستہ ہیں. ماضی میں بچوں کے ایک معروف پندرہ روزہ میگزین کے سب ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں.طلباء کے ایک ماہانہ میگزین کے کالم نگار بھی رہ چکے ہیں.Muhammad Abdullah is a Freelancer Journalist, Columnist and Blogger. His reporting is based on Urdu Linguistics, Social & Current political issues.Find out more about his work on his Twitter account https://twitter.com/imMAbdullah_