خود کو قانون سے بالاتر ہونے کا تصور ختم ہونا چاہئے،اسلام آباد ہائیکورٹ

0
181
islamabad highcourt

اسلام آباد ہائیکورٹ: بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل،درخواست گزار وکلاء ایمان مزاری، عطاء اللہ کنڈی اور ہادی چھٹہ عدالت پیش ہوئے،اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اب تک 68 افراد کو بازیاب کرایا گیا،بازیاب افراد کی لسٹ میڈم ایمان مزاری کے ساتھ شئیر کی گئی ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آخری سماعت پر انہوں 28 افراد کی بازیابی کرنے کا کہا تھا،ایمان مزاری نے کہا کہ اب تک 56 افراد کو بازیاب کرلیا گیا جبکہ 12 تاحال لاپتہ ہیں،عدالت نے وزارت داخلہ کو متاثرہ لوگوں کے لواحقین سے ملاقات کا کہا تھا،وزارت داخلہ کا متاثرہ افراد کے خاندانوں کے ساتھ ملاقات افسوناک رہی،اٹارنی جنرل آفس یا کسی اور آفس سے اب تک کوئی خاص پراگریس نہیں ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارے مطابق 15 تاحال لاپتہ ہیں جبکہ ان کے مطابق 12 لاپتہ ہیں،ایمان مزاری نے کہا کہ درخواست گزار فیروز بلوچ کے حوالے سے کہا گیا کہ انکو ریلیز کردیا گیا،آج صبح فیروز بلوچ کے فیملی سے بات ہوئی وہ تاحال لاپتہ ہے،عدالت نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ بتائیں کہ ان لوگوں کو ریلیز کردیا یا گھر پہنچایا؟ وفاقی حکومت کا undertaking دینے پر عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ وفاقی حکومت ہی جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں؟کیا ہم بھی وزیراعظم آفس، وزارت داخلہ یا وزارت دفاع سے بیان حلفی لیں؟ وزیراعظم آفس، وزارت داخلہ و دیگر بڑے دفاتر یہاں بیان حلفی دیں کہ آئندہ کوئی لاپتہ نہیں ہوگا،ریاست کے اداروں کو قانون کی پاسداری پر یقین کرنا چاہیے،ریاستی ادارے عدالتوں پر یقین نہیں کرتے اسی لیے لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے،ہمارے سامنے پولیس کا ادارہ ریاست کا فرنٹ فیس ہے،

ایمان مزاری نے سابق نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے لاپتہ افراد کے لواحقین سے ناروا سلوک کی شکایت کی،اور کہا کہ نگران وزیر داخلہ نے خواتین کو کہا اگر آپ کے پیارے کو مارا گیا تو آپ کو بتا دیں گے،

دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اور اسکے اداروں کو عدالتوں پر اعتماد کرنا ہو گا،ریاست اور اسکے ادارے رول آف لاء کو نہیں مانتے اس لیے جبری گمشدگیاں ہوتی ہیں،پولیس ریاست کا فرنٹ فیس ہے، دوسرے ادارے فرنٹ فیس نہیں ہیں،کیا مشکل ہے کہ پولیس ایک ضمنی لکھ کر انٹیلی جنس کے افسروں کو ملزم بنا دے گی،وقت آئے گا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افسران پراسیکیوٹ ہونگے، اگر تھانے پر چھاپہ ماریں اور کوئی بندہ بازیاب ہو تو پولیس والے کی تو نوکری چلی جاتی ہے،دوسری طرف انٹیلی جنس ایجنسیوں سے متعلق صورتحال بالکل مختلف ہے،میرے سامنے کوئی مسنگ بلوچ بازیابی کے بعد نہیں آیا جس سے میں سوال کر سکوں؟جو لوگ بازیاب ہوئے پتہ نہیں وہ ٹھیک ہے بھی یا نہیں، انکی صحت کی صورتحال کیا ہوگی،مسنگ پرسنز کا تصور صرف ہمارے جیسے ملکوں میں ہی ملتا ہے باقی ملکوں میں نہیں، آج آپ نہ کریں لیکن ایک وقت میں اعلی ترین عہدیدار بھی پراسیکیوٹ ہونگے،دہشتگردوں کا ٹرائل بھی انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں ہوتا ہے،کیا امر مانع ہے کہ بلوچ شدت پسندوں کا ٹرائل بھی انہی عدالتوں میں ہو، بلوچستان میں اپنی انسداد دہشتگردی عدالتیں فعال کریں ٹرائل ہو سکتا ہے،سسٹم پر اعتماد کریں، کیا امر مانع ہے کہ دہشتگرد کا ٹرائل نہ ہو سکے اور وہ بری ہو جائے،یہ درخواست گزار بھی کبھی نہیں چاہیں گے کہ دہشتگردوں کو پروٹیکٹ کریں،ریاست کا سپاہی مرتا ہے تو آپ ان کے لیے شہدا پیکج کا اعلان کرتے ہیں،جو لوگ ریاست کے لیے قربانی دیتے ہیں وہ پولیس ہو،فوج ہو یا کوئی بھی شہری ہو،حق سب کا ہے،مغرب میں تو بڑے سےبڑے قاتل کو بھی ضمانت دیتے ہیں یہاں ہم نہیں کرتے،تین تین سال تک ہم ٹرائل مکمل نہیں کرتے،جن لوگوں کا لسٹ آپ نے مہیا کیا، ان میں کتنے لوگ ہیں جن کے خلاف کریمنل کیسسز ہیں؟،اس سائڈ کو کوئی اعتراض نہیں کہ آپ کس کے خلاف مقدمہ درج کریں یا کسی عدالت پیش کریں،مسلہ یہ ہے کہ جو لوگ لاپتہ ہو جاتے ہیں ان کے خاندان والے انکو پھر کبھی دیکھتے ہی نہیں،

وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ فیملیز کے مطابق سی ٹی ڈی اٹھاتے ہیں اور بعد میں مقدمہ درج ہوتا ہے،سی ٹی ڈی نے جن لوگوں کو اٹھایا اور عدالتوں میں پیش کیا وہ بری ہوگئے، عدالت نے کہا کہ پاکستان جیسا ملک اس قسم کے معاملات کو برداشت نہیں کرسکتا،بلوچستان سے لوگ اسلام آباد آئے ہیں اپنا پرامن احتجاج ریکارڈ کرنے، نیشنل پریس کلب کے باہر اگر یہ بیٹھے ہیں تو انکو سہولیات مہیا کرنا ہوگی،ایمان مزاری نے کہا کہ ڈیتھ اسکواڈ کے زریعے مظاہرین کو دھمکایا جارہا ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ یہ ڈیتھ اسکواڈ کیا ہے ؟ ایمان مزاری نے کہا کہ یہ حکومتی سرپرستی میں ایک سکواڈ ہے جو لوگوں کو مارتے ہیں،اٹارنی جنرل نے ایمان مزاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیتھ اسکواڈ کی جانب سے دھمکیوں پر آپ درخواست دیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ ڈیتھ اسکواڈ نام سے ہی سمجھ آتا ہے،ان بچے بچیوں کا کوئی قصور نہیں، یہ پاکستانی ہیں،ہم نے ان کو دیکھنا ہیں کیونکہ ہمارے سامنے کوئی لاپتہ شخص کھڑا نہیں،ان نو سالوں میں میرے سامنے ایک بازیاب شخص آیا تھا جس نے کہا کہ سی ٹی ڈی نے مجھے اٹھایا تھا،ان معاملات میں وزیراعظم، وزارت داخلہ، وزارت دفاع ہی جوابدہ ہے،

جسٹس محسن اختر کیانی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ میں آپکی یہ بیان حلفی جمع کرائی گئی ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں بیانی حلفی ابھی جمع نہیں ہوئی مگر جلد جمع کریں گے،عدالت نے کہا کہ وزارتوں کے لوگ موجود ہیں یہ چیزیں پاکستان کی بہت بڑی بدنامی بنی ہے، ہم معاشی مسائل کا شکار ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی کررہے ہیں، جن 12 لاپتہ افراد کی لسٹ اٹارنی جنرل کو دیں اور آپ نے دیکھنا ہے،

عدالت نے سمی دین بلوچ سے استفسار کیا کہ آپ نے کچھ کہنا ہے؟ سمی دین بلوچ نے عدالت میں کہا کہ عدالتی حکم پر وزیراعظم نے فواد حسن فواد کی سربراہی میں کمیٹی بنائی تھی،کمیشن نے بتایا کہ جو لوگ دس سال سے زائد عرصہ سے لاپتہ ہیں انکا کچھ نہیں بتاسکتے،عدالت نے کہا کہ ایک بات پر یقین کریں کہ جو لوگ دس سال ہو یا پندرہ سال سے انکی معلومات حکومت فراہم کریگی،اگر کوئی زندہ ہے یا مرے ہیں حکومت اپکو معلومات فراہم کریں گی، سمی دین بلوچ نے کہا کہ ہمارے والدین مرتے وقت بھی اپنے لاپتہ بچوں کو یاد کرتے ہیں،ہم اس چیز سے نکلنا چاہتے ہیں،ابھی ایک شخص نو سال بعد بازیاب ہوا مگر ان کے گھر والوں سے کہا گیا کہ کسی سے بات نہیں کرنی،ہمیں وفاقی وزرا نے بھی کہا تھا کہ اگر آپ کے لاپتہ افراد سے متعلق بتائیں گے تو آپ شور نہیں کریں گے، عدالت نے کہا کہ پہلے لاپتہ افراد کو بازیاب ہونے دیں پھر جس ادارے نے آپ سے بیان حلفی لی ہے اسی کا دیکھا جائے گا، عدالت نے تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او کو دونوں مظاہرین کے سیکورٹی انتظامات فراہمی کی ہدایت کر دی

دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خود کو قانون سے بالاتر ہونے کا تصور ختم ہونا چاہئے، وزیراعظم، داخلہ اور دفاع کے سیکرٹریز کو بیان حلفی دینا ہو گا کہ جبری گمشدگی کی ہے ، نہ آئندہ ہو گی،جو افراد لاپتہ ہیں چاہے دس سال سے زائد ہوگیا انہیں بتانا پڑے گا، وہ افراد زندہ ہیں یا مر گئے بتانا پڑے گا

بلوچ خاتون نے عدالت میں کہا کہ آپ ہمیں امید دے دیں ورنہ شاید ہم کبھی مڑ کر واپس نہ آئیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جن پر الزام ہے انہی سے ہم نے کہنا ہے ،بلوچ خاتون نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ کے پیاروں سے متعلق بتائیں گے تو آپ شور نہیں مچائیں گے،

عدالت نے کیس کی سماعت 13 فروری تک کے لئے ملتوی کردی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ مظاہرین کی گرفتار ی کا کیس نمٹا دیا

بلوچ لانگ مارچ،300 افراد گرفتار،مذاکراتی کمیٹی قائم،آئی جی سے رپورٹ طلب

ایک ماہ میں بلوچ طلباء کی ہراسگی روکنے سے متعلق کمیشن رپورٹ پیش کرے ،عدالت

 دو ہفتوں میں بلوچ طلبا کو ہراساں کرنے سے روکنے کیلئے کئے گئے اقدامات کی رپورٹ طلب

کسی کی اتنی ہمت کیسے ہوگئی کہ وہ پولیس کی وردیوں میں آکر بندہ اٹھا لے،اسلام آباد ہائیکورٹ

کیا آپ شہریوں کو لاپتہ کرنے والوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں؟ قاضی فائز عیسیٰ برہم

لوگوں کو لاپتہ کرنے کے لئے وفاقی حکومت کی کوئی پالیسی تھی؟ عدالت کا استفسار

لاپتہ افراد کیس،وفاق اور وزارت دفاع نے تحریری جواب کے لیے مہلت مانگ لی

عدالت امید کرتی تھی کہ ان کیسز کے بعد وفاقی حکومت ہِل جائے گی،اسلام آباد ہائیکورٹ

 ”بلوچ یکجہتی کونسل“ کےاحتجاجی مظاہرے کی حقیقت

Leave a reply