پاکستان پر قرضوں کے بوجھ کا اصل ذمہ دار تحریر: محمد حارث ملک زادہ۔

0
67

کیونکہ قرض رات کا غم اور دن کی رسوائی ہے ".
یہ حدیث زندگی کے تمام پہلوؤں کے لیے ، چاہے وہ کوئی انسان ہو یا کاروبار ہو یا کوئی ملک وغیرہ سب کے لیے انتہائی اہم اور فائدہ مند ہے ۔
قرض کے زیرِ بحث عنوان پر میں صرف ایک ملک یا حکومت پر ہی تفصیلی بات کرو گا جو کہ پاکستان ہے، حکومتی قرض کا مطلب کہ کسی ملک یا حکومت پر واجب الادا قرضہ ہے۔ حکومتی قرضوں کی بات یہ ہوتی ہے کہ قرض لینے والا کوئی اور ہوتا ہے اور قرض ادا کرنے والا کوئی اور۔ پاکستان کو ہی مدنظر رکھا جائے قرضوں کے بوجھ کے ذمہ دار حکومتوں کے قرض لینے والے بد دیانت/کرپٹ لیڈر ہوتے ہیں جبکہ حکومت کا یہ سارا قرضہ آخر کار اس ملک کے ٹیکس دھندگان کو بھرنا پڑتا ہے جس پر سودبھی شامل ہوتا ہے۔ حکومتی قرضوں کے بو جھ نے اُن آنے والی نسلوں کو بھی مقروض بنا دیا ہے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے۔ پاکستان پر قرضوں کے بوجھ کے بارے میں تفصیل میں جانے سے پہلے اصل ذمہ دار وں کا ذکر کردو کہ پاکستان کے قرضوں کا ذمہ دار صرف اور صرف "پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن کے نااہل و چور سیاستدان، کرپٹ بیوروکریٹ، اشرافیہ وغیرہ ” ہیں۔ 70 سال کے اتنے بڑے بوجھ کا خمیازہ اور اثر موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔ اعدادوشمار کے اندازہ کے مطابق پاکستان پر 116309ملین امریکی ڈالر کا بیرونی قرضہ ہے ،اس لحاظ سے ہر پاکستانی شہری پر 1.70 لاکھ کا پاکستانی روپےکے حساب سے قرضہ ہے۔ قرضوں کے اس بوجھ کے علاوہ پاکستان کو ان قرضوں کا سالانہ اربوں کا سود بھی ادا کرنا پڑتا ہے، شرح سود ذیادہ ہونے کی وجہ سے کئی کئی سالوں تک ملک سے قرضوں کا انبار ختم نہیں ہوتا ہے۔ پاکستان پر قرضوں کے بوجھ کے اصل ذمہ داروں کا اعدادوشمار کے ساتھ تعین / ثابت کرتے ہیں۔
1947 قیام پاکستان کے بعد برطانوی حکومت کی طرف سے خاطر خواہ سرمایہ نہیں دیاگیااور اس کے علاوہ مقامی پیداواری صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے ملک کی کمزور معیشت کو چلانے کے لیے مجبوراَ قرض لینا پڑا جو کہ صدر جنرل ایوب خان کے دور تک 50 3 ملین ڈالر تک تھا، صدر ایوب خان کا دور پاکستان کے سنہری ادوار میں سے تھا جس میں پاکستان نے کافی ترقی کی کیونکہ قرض کااستعمال صحیح ہواتھا جس کے منافع سے 180 ملین ڈالر قرض ادا کر کے 50 3 ملین ڈالر کے قرضے میں 170 ملین ڈالر رہ گیا تھا اسی لیے صدر ایوب خان پاکستان پر قرضے کے انبار کے ذمہ دار نہیں کیونکہ انہوں نے اپنے دور میں قرضہ واپس کیا تھا۔ اس کے علاوہ صدر ایوب خان کا دور وہ تھا جس میں پاکستان بھی دوسرے ملکوں کو قرضہ دینے شروع ہوگیا تھا، جس کی بڑی مثال آج کی دنیا کی چو تھی بڑی معیشت جرمنی کی جس کو پاکستان نے قرضہ دیا تھا۔پھر صدر ایوب خان دور کے بعد شہید ذالفقار علی بھٹو کے دور میں 6320 ملین ڈالر تک پہنچ گیا جو کہ ایک دم لمبی چھلانگ تھی۔ جس کی اہم وجہ سقوط ڈھاکہ ہے جس سے اکستان کو بھارت سے جنگ کی وجہ سے کافی نقصان پہنچا تھا، اس کے علاوہ اپ خود اندازہ کر سکتے ہیں، پاکستان کی پیداواری زرائع میں کمی کا سامنا ہوگیا۔ شہید ذالفقار علی بھٹو کے دور بعد جنرل ضیاءالحق کے حکومت سنبھالنے کے بعد بھی پاکستانی معیشت میں بہتری نہ ہوسکی جس کے سبب پاکستان کا بیرونی قرضہ ڈبل کو 12913 ملین ڈالر تک ہوگیا۔لیکن اس قرضہ کی اتنی تیز رفتار سے بڑھنے کی وجہ ہے کہ صدر ایوب خان کا دور کی طرح قرضہ کا استعمال ہوتا ہوا نظر بھی آیا جس میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام ، چھوٹے ڈیمز ، جنگی ہتھیار ، صنعتیں وغیرہ نمایا ں ہے لیکن ان قرضوں کی واپسی ممکن نہ ہوسکی جس کی وجہ سے جنرل ضیاءالحق کی شہادت کے بعد بینظر بھٹو کے اقتدار سنبھالنے سے اور پھر نواز شریف کی حکومت کے اختتام پر یہ قرضہ 39000 ملین ڈالر تک جا پہنچا تھا جو کہ جنرل ضیاءالحق کے دور سے تین گنا ذیادہ تھا اس کے برعکس پاکستان معیشت میں بھی خاطر خواہ بہتری نہ ہوئی۔ نواز شریف دور میں زیادہ توجہ موٹرویز کی طرف رہی جس سے معیشت کو کوئی فائدہ نہ ہوا بلکہ ملکی قرضوں میں اضافہ سے سود کی ادائیگی کے لیے انہی موٹرویز کو گروی رکھوا کر اوپر سے اور قرضے لیے گئے۔ پھر جنرل صدر پرویز مشرف کے دور میں صدر ایوب خان کی طرح قرضوں کی واپسی کی گئی جس میں صدر پرویز مشرف نے 5000 ملین ڈالر قرضہ بھی کیا اور ملکی معیشت میں بھی بہتری ہوئی۔ صدر پرویز مشرف کے بعد نااہل پیپلزپارٹی نے ماضی کی طرح ملکی معیشت کا کباڑہ کرکے ایک بار پھر قرضوں میں ریکارڈ اضافہ کردیاجس کے مطابق صدر پرویز مشرف کے دور میں 39000 ملین ڈالر قرضوں میں سے 5000 ملین ڈالر کی ادائیگی سے 34000 ملین ڈالر کے قرضے میں صدر زرداری نے تاریخی 14000 ملین ڈالر کا اضافہ کیا ۔جس سے صاف صاف ثابت ہوتاہے کہ کرپٹ اور نااہل سیایسی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں نے ملک کو مقروض کیا ہے لیکن اس کے قرضہ کا صحیح استعمال نہ کرکے معیشت میں بہتری نہ ہوئی بلکہ وہ سود کی اادائیگی سے پہلے سے بھی زیادہ تباہ ہوگئی اسی لیے یہ سیایسی حکمرانوں ہی ذمہ دار ہیں ۔ 2013 میں نوازشریف نے دوبارہ حکومت حاصل کرنے کے بعد صدر زرداری کے قرضوں کا ریکارڈ توڑ ڈالا جس میں وزیراعظم نوازشریف نے 35000 ملین ڈالر قرضہ لے کر ملکی قرضے کو 84000ملین ڈالر تک پہنچا دیا حسب روایت نوازشریف موٹرویز و بجلی گھروں کا روگ الاپتے رہے لیکن حقیقت چھپا کر عوام کو بیوقوف بنایا اور اپنا ووٹ بنک اور ذاتی دولت بناتے رہے ۔
پاکستان پر قرضوں کے انبار کی وجوہات میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے کرپٹ ، نااہل ، کمیشن خور، مفادپرست، چور سیاست دان ہیں جوکہ بڑی بڑی وازتوں پر فائض ہوکر اپنے خاندانوں و نسلوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کرپٹ و کمیشن خور بیوروکریسی کے ساتھ ملی بھگت سے بڑے بڑے قرضے ملکی ترقی کے نام پر لے کر بیشتر حصہ اپنے جیبوں میں ڈالتے رہے ہیں، اس کے برعکس جب بھی کسی ڈیکٹیٹر نے حکومت سنبھالی تو ملکی قرضوں میں کمی ہوئی یا ملکی قرضوں کا صحیح استعمال ہوتا ہوا نظر آیا ہے اسی لیے میرے نزدیک ڈیکٹیٹر ملکی قرضوں کے کسی بھی صورت میں ذمہ دار نہیں ٹھہرتے ہیں ، ذمہ دار صرف سیاست دان ہی ہیں۔
ایک پاکستانی ہونے کے ناطے ملکی احتساب کے اداروں سے مطالبہ ہے کہ ان چور سیاست دان کے گرد گھیر تنگ کرکے ان تمام قرضوں کا تفصیلی حساب لینا ضروری ہے کیونکہ موجودہ حالات میں حکومتِ وقت سے خزانہ خالی ہونے کی وجہ سے ملک چلانا انتہائی ناممکن ہو رہاہے اسی کیے تمام سیاستدانوں و بشمول بیوروکریسی کے احتساب کر کے نشان عبرت بنایا جائے اور تمام تر ملک کی لوٹی گئی دولت کو واپس لیا جائے ۔ اللہ پاک پاکستان کو تمام تر مشکلات سے نکال کر ، عرج عطا فرمائے آمین ۔
پاکستان زندباد
پاک فوج زندہ باد

@HarisMalikzada

Leave a reply