قصہ سلیمان علیہ السلام تحریر:شاندانہ فریدون

0
379

"اے چیونٹیو ! اپنے اپنے بلوں میں داخل ہو جاو ! ایسا نہ ہو کہ سلیمان علیہ السلام کا لشکر تمہیں روند ڈالے۔ اور ان کو خبر تک نہ ہو” ایک ننھی چیونٹی نے اپنی ساتھیوں سے کہا یہ مدھم آواز خضرت سلیمان علیہ السلام نے سنی اور مسکرا دئیے اور اللہ کا شکر ادا کیا حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے عظیم الشان لشکر کے ساتھ وہاں سے گزر رہے تھے اللہ تعالٰی نے انہیں نہایت وسیع و عریض سلطنت کا بادشاہ بنایا تھا اور نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں، پرندوں، جنات اور ہوا تک کو ان کا تابع کر دیا تھا ۔ اللہ نے انہیں اتنی عظیم سلطنت بخشنے کے ساتھ اور حکمت اور غیر معمولی قوت فیصلہ بھی عطا فرمائی تھی
حضرت سلیمان علیہ السلام ،حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے اور 992 قبل مسیح میں پیدا ہوئے (قبل مسیح کا مطلب ہے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش سے 992 سال پہلے) وہ حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد تحت پر بیٹھے ۔ شروع کے تین سال مشکلات کے تھے۔جس میں مختلف معرکے پیش آئے ۔ بالآخر آپ نے سب مخالفین پر قابو پایا اور ایک نہایت مستحکم اور وسیع حکومت قائم کی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو تعمیرات کا بہت شوق تھا ۔انھوں نے ہیکل سلیمانی اور بہت سے نئے شہر تعمیر کروائے
ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام کا دربار لگا ہوا تھا۔ سوائے ہد ہد کے سب حاضر تھے۔ ” ہد ہد کہاں ہے؟” حضرت سلیمان علیہ السلام نے ناراضگی سے دریافت فرمایا، "وہ آکر غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ بیان کرے ورنہ اسے سخت سزا دوں گا” کچھ ہی دیر میں ہد ہد آگیا ۔ اور اس نے یوں گفتگو شروع کی۔ "میں ابھی بھی ملک یمن سے آرہا ہوں ۔ وہاں میں نے ایک قوم دیکھی جو بہت خوشحال ہے۔ اس کی حکمران ایک عورت ہے۔ یہ قوم گمراہ اور مشرک ہے۔ کیونکہ وہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں”
حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ حال سن کر ہد ہد کے ذریعے وہاں کی ملکہ کو خط بھیجا۔ اس خط کا آغاز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے کیا گیا تھا۔ اور اس میں ملکہ اور اس کی قوم کو سیدھے راستے پہ آنے کی دعوت دی گئی تھی ۔ یمن کی ملکہ کا نام ” بلقیس” تھا اور اس ملک میں جو قوم آباد تھی۔ وہ "سبا” کہلاتی تھی ۔ ملکہ کو جب یہ خط ملا تو اس نے اپنے درباریوں سے اس خط کے بارے میں رائے طلب کی۔ سب نے ایک زبان ہوکر یہی مشورہ دیا کہ ہمیں اس بادشاہ سے جنگ کرنی چاہیے۔ ہم سب بہادر بھی ہیں۔ اور ہمارے پاس بہت سا سامان جنگ بھی ہے
ملکہ ذہین اور دانا تھی۔ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی عظیم سلطنت کے بارے میں پہلے سن چکی تھی۔ اس نے اپنے درباریوں کو سمجھایا کہ جلدی کرنا درست نہیں۔ جنگ کوئی بھی جیت سکتا ہے۔ اور جو جیت جاتا ہے وہ بستیوں کو تباہ اور عزت دار لوگوں کو ذلیل کر دیتا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو کچھ تحائف بھیجے جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ بات یہیں ختم ہو جائے
یوں ایک وفد پیش قیمت تحائف لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا” اللہ تعالٰی نے دین و دنیا کی جو نعمتیں مجھے عطا فرمائی ہیں وہ تمہارے تحائف سے بہت بہتر ہے۔ مجھے ان کی ضرورت نہیں، تم ان کو واپس لے جاو۔ اور اپنی ملکہ سے کہہ دینا کہ اس نے شرک اور گمراہی کا راستہ نہ چھوڑا اور اللہ کا دین قبول نہ کیا تو ہم ایسے لشکروں سے حملہ کریں گے جن کے مقابلے کی تم میں طاقت نہ ہو گی”
ملکہ سمجھ گئی کہ یہ معاملہ دنیاوی مال و دولت کی حرص کا نہیں ہے۔ چنانچہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام سے ملنے کیلئے خود روانہ ہو گئی۔ جب وہ پروشم کے قریب پہنچی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے سوچا کہ اس کو اپنے پیغمبر ہونے کی نشانی دکھائی جائے تاکہ اس کو سچائی قبول کرنے میں آسانی ہو۔ آپ علیہ السلام نے دربار کے حاضرین سے پوچھا کہ کوئی ہے جو ملکہ کے یہاں پہنچے سے پہلے اس کا تحت یہاں لے آئے۔ ایک جن نے کہا کہ وہ دربار برخاست ہونے سے پہلے تحت لے آئے گا۔ ایک شخص نے، جو کتاب کا علم رکھتا تھا، کہا کہ میں پلک جھپکنے میں تحت یہاں لا سکتا ہوں۔ اور اگلے لمحے تحت وہاں موجود تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اور اپنے درباریوں سے فرمایا کہ اس میں تھوڑی تبدیلی کر دو تاکہ ہم آزمائیں کہ ملکہ کتنی ذہین ہے۔ جب ملکہ پہنچی تو اپنا تحت دیکھ کر کہنے لگی۔” یہ تو میرا تحت معلوم ہوتا ہے۔ میں آپ کی عظمت پہلے ہی پہچان گئی تھی۔ ہم نے آپ کی اطاعت قبول کر لی ہے”
ملکہ نے ظاہری اور دنیاوی اعتبار سے تو اطاعت قبول کر لی تھی۔ لیکن اس کی سوچ میں ابھی گہرائی پیدا نہ ہوئی تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو سمجھانے کے لیے ایک اور طریقہ اختیار کر لیا۔ ان کے محل کا فرش شیشے کا تھا۔ جس کے نیچے نہر بہہ رہی تھی
اوپر سے دیکھنے پر شیشہ نظر آتا تھا۔ صرف پانی ہی بہتا نظر آتا تھا۔حضرت سلیمان علیہ السلام ملکہ کو اپنے محل لے گئے۔ ملکہ نے نیچے دیکھا تو اس نے فورا اپنے پائنچے اٹھا لیے۔ وہ سمجھی کہ نیچے پانی بہہ رہا ہے۔ کہیں میرے کپڑے بھیگ نہ جائیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا۔” تم دھوکے میں ہو یہ پانی نہیں شیشہ ہے”۔ ملکہ نے ان کی اس جملے پر غور کیا۔ تو اس کا ذہین روشن ہو گیا۔ وہ سمجھ گئی کہ سورج کو سجدہ کرنا بھی ایک دھوکہ ہے۔ وہ ہستی ہی سجدے کے لائق ہے ۔ جس نے اس سورج اور تمام کائنات کو بنایا ہے۔ اور یوں وہ ایمان لے آئی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام اکتالیس سال حکومت کرنے کے بعد 924 قبل مسیح میں وفات پاگئے۔ وفات کا واقعہ بھی بہت عجیب ہے۔ آپ علیہ السلام نے جنوں کو ایک نیا شہر تعمیر کرنے کے کام پر مامور کیا تھا۔ یہ کام ابھی نامکمل تھا ۔ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا آخری وقت آگیا۔ آپ علیہ السلام اپنے عصا کا سہارا لیے ہوئے تھے۔ اور اسی حالت میں آپ علیہ السلام کی وفات ہو گئی۔ سب سمجھتے رہے کہ آپ علیہ السلام کام کی نگرانی فرما رہے ہیں ۔عصا میں آہستہ آہستہ گھن لگ رہا تھا۔ایک دن عصا گھن کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ تب جنوں اور تمام مخلوقات کو معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام کا انتقال ہو گیا ہے۔

@Shandana_Twitts

Leave a reply