‏قدرتی آفات خدا اور انسان تحریر: نعمان خان

0
67

حالیہ چند برسوں میں انسانی آبادی کو بہت سی مہلک وباؤں نے اپنی لپیٹ میں لیا جس میں سب سے اہم تو کرونا وائرس تھی جس کی وجہ سے انسانی زندگی اور سماج بہت حد تک مفلوج ہو چکا ہے اور حالیہ اعداد شمار کے مطابق اس سے مرنے والے لوگوں کی تعداد چھ میلین تک جا پہنچی ہے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے کئے جانے والی تدابیر نے رنگ لانا شروع ہی کیا ہے کہ ترکی میں لگنے والی آگ نے انسانوں کو ایک نئی پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے اور ترکی کے ایک بڑے علاقے کو اس آگ نے راکھ کا ڈھیر بنا دیا اور لوگوں کی بہت سی قیمتی املاک جل کر کوئلہ ہو گئیں اور بہت سی انسانی جانوں کا ضیائع بھی ہوا ہے۔
بلکل ایسے ہیں پچھلے ماہ مغربی یورپ ، جرمنی اور دیگر ممالک میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے ہر روز ایک نئی آفت سے انسانیت دوچار ہونے کی خبریں زیر گردش ہیں۔

اور ایسی کئئ آفات ہیں جن کے بارے ابھی ہم غیر سنجیدہ ہیں لیکن آنے والے وقتوں میں وہ انسانوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوں گی مثلا میٹھے پانی کی بڑھتی ہوئی قلت ایک ایسا امر ہے جو آنے والے وقت میں بڑی عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ دنیا میں بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے عالمی درجہِ حرارت بری طرح متاثر ہوا ہے۔ جس کی بنا پر پہاڑوں موجود برفانی تودے بڑے پیمانے پر پگھلنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ برفانی تودے گلیشئر دنیا کے میٹھے پانی کا تقریبا ستر فیصد ہیں اور انکے پگھلنے کے یقینی اثرات پہلے پہل سیلاب اور بعد میں ایک بڑے عالمی بحران کے طور پر ظاہر ہوں گے۔

سوال تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں کا شدید مذہبی طبقہ اسے خدائی عذاب قرار دے کر کندھے جھاڑ دیتا ہے اور غیر مذہبی افراد بھی اسے قدرت کا کھیل کہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں مگر ان سب میں سب سے اہم بات یہ ہے ان قدرتی آفات میں قدرت سے زیادہ انسانی افعال کا ہاتھ ہے جو اس سب کا سبب ہیں۔

جدید سرمایہ داری نظام نے سرمایہ بنانے کے لیے گاہک (کنزیومر) کو چیز بیچنے کی غرض سے فطرت کو بری طرح مسخ کرنا شروع کر دیا ہے انسانی آبادی کو سہولت کے نام پر جنگلات کے کٹاؤ سے لے کر جدید آلات سے خارج ہونی والی تابکاری لہروں تک ہر شہ فطرت سے ٹکراؤ لے رہی ہے اور جس کا خمیازہ پوری انسانیت بھگت رہی ہے ۔

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر آی الیون میں آنے والا سیلابی ریلا بھی ایک ناکام ٹاؤن پلانگ کی مثال ہے جس میں ایک غیر موزوں رہائشی علاقے میں لوگوں کو بے ہنگم طریقے سے بسا دیا گیا اور جس کا نتیجہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیائع کے طور پر سامنے آیا۔

ہم وہی کاٹ رہے جو ہم بو رہے ہیں اگر ہم نے فطرت جو مسخ کرنے اور اس سرمایہ داریت کے منہ زور گھوڑے کو لگام نہ دی تو فطرت اور اسکے عناصر ہمیں مسخ کر دیں گے سو ہوش کے ناخن لیں اور اس بڑھتے ہوۓ کمرشلزم اور سرمایہ داریت کو جان کر اس کے خلاف موثر اقدامات کے لیے آواز اٹھائیں۔
Twitter Link: ‎@inoumanspeaks

Leave a reply