کمسن گھریلو ملازمہ رضوانہ پر تشدد کا معاملہ، بچی نے اسلام آباد پولیس کو بیان ریکارڈ کروا دیا
اسلام آباد پولیس حکام نے کمسن بچی رضوانہ کا ہسپتال میں ہی بیان ریکارڈ کیا، رضوانہ نے اپنے اوپر ہونے والے تشدد کی ساری آب بیتی سنا دی، رضوانہ نے تفتیشی حکام کو بتایا کہ جج کی اہلیہ سومیہ عاصم مجھ پر روزانہ تشدد کرتی تھیں، مجھے ڈنڈوں، لوہے کی سلاخوں سمیت دیگر چیزوں سے مارا جاتا تھا، جج کی اہلیہ مجھے لاتیں، ٹھڈے بھی مارتی تھی، میرے بال پکڑ کر میرا سر دیوار کے ساتھ مارا جاتا تھا، کمرے میں بند کر دیا جاتا اور کھانا بھی نہیں دیا جاتا، جج جب گھر والوں کے ساتھ باہر جاتے تو مجھے ایک ایک ہفتہ گھر میں بند رکھا جاتا،جج کی اہلیہ تشدد بارے گھر والوں سے ذکر نہ کرنے کا کہتیں اور دھمکاتیں،میرے زخموں کی مرہم پٹی بھی نہیں کراتے تھے،
دوسری جانب وفاقی پولیس نے سول جج عاصم حفیظ کو بیان ریکارڈ کروانے کیلے دوبارہ طلب کر لیا ،پولیس جے آئی ٹی کو جج کو شامل تفتیش کرنے کی رکاوٹ بھی دور ہو گئی جے آئی ٹی کو بھی ملزمہ کے شوہر سے بطور جج کوشامل کرنا مشکل تھا ،جے آئی ٹی کی جانب سے جج کو شامل تفتیش کرنے کیلئے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع بھی کیا گیا تھا،جے آئی ٹی متاثرہ بچی کے والدین اور ملزمہ کا بیان ریکارڈ کر چکی ہے
علاوہ ازیں چیئر پرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو پنجاب سارہ احمد نے کہا کہ تشدد کا شکار کمسن گھریلو ملازمہ رضوانہ کو صحتیابی کے بعد چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں رکھا جائے گا کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ محفوظ نہیں اور اس کو دوبارہ ملازمت پر رکھوا دیاجائے گا۔ وہ رضوانہ تشدد کیس سے متعلق کارروائی اورملک بھر میں بڑھتے ہوئے چائلڈ لیبر کے کیسز سے متعلق پریس کانفرنس کر رہی تھیں۔ چئیرپرسن سارہ احمد کے ہمراہ معروف اداکارہ اور چائلڈ رائٹس ایکٹیویسٹ نادیہ جمیل اور سسٹینبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کوثر عباس بھی موجود تھے۔ سارہ احمد نے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد تشدد کا شکار کمسن گھریلو ملازمہ رضوانہ اور فاطمہ کے لیے انصاف کا مطالبہ ہے۔ رضوانہ پر تشدد کے بعد سندھ میں معصوم بچی پر تشدد کا ایک اور واقعہ پیش آگیا جو کہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے کمسن بچیوں رضوانہ اور فاطمہ سمیت تمام گھریلو ملازمین پر تشدد کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ رضوانہ پر جتنا تشدد ہوا، اتنا تشدد کسی اور بچے پر نہیں دیکھا۔ اس کی تعلیم رہائش اور دیگر تمام ضروریات چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی جانب سے پوری کی جائیں گی۔
سارہ احمد نے کہا کہ جب تک ملزمان کو سخت سے سخت سزا نہیں ملیگی تب تک ایسے کیسز کی روک تھام ممکن نہیں۔جب تک تمام ادارے اس پر سنجیدگی سے کام نہیں کرتے تب تک ایسے کیسز ہوتے رہے گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے کیسز میں ابھی تک مجرموں کو سزائیں نہیں ملی اور ایسے کیسز کے الگ سے کورٹ ہونے چاہئیں۔ہمارے قوانین میں سزائیں کم ہیں اس لیے سزائیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ چیئرپرسن نے کہا کہ ہم نے سوشل بائیکاٹ آف چائلڈ ایمپلائز کی مہم شروع کی جس میں لوگوں کو کہا گیا کہ وہ ایسے لوگوں سے ملنا چھوڑ دیں جنھوں نے بچوں کو ملازمت پر رکھا ہوا ہے۔ کمسن گھریلو ملازمین کو تشدد اور ظلم سے بچانے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو تشدد اور ظلم کا شکار گھریلو ملازمین کو تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ ہم نے چیف جسٹس آف پاکستان سے رضوانہ تشدد کیس میں سو موٹو لینے کی درخواست کی ہے۔ چئیرپرسن سارہ احمد نے کہا کہ گھریلو ملازمین کو موثر قانون سازی کے ذریعے تشدد سے بچایا جا سکتا ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی جانب سے تشدد کا شکار بچوں کو تعلیم کے ذریعے معاشرے کا مفید شہری بنایا جا رہا ہے۔ میری سب سے درخواست ہے کہ چائلڈ لیبر کے خاتمے اور بچوں کے تحفظ میں ہمارا ساتھ دیں۔ تشدد کا شکار گھریلو ملازمین کے بارے میں چائلڈ ہیلپ لائن 1121پر اطلاع دیں
دوسری جانب اسلام آباد پولیس بھی رضوانہ تشدد کیس کی مختلف پہلوؤں سے تفتیش کررہی ہے، اسلام آباد پولیس کی جانب سے بچی کو ملازمت پررکھوانے والے ٹھیکیدار کو شامل تفتیش کیا گیا ہے، رضوانہ کو ابتدائی طبی امداد دینے والے ڈاکٹر نے پولیس کو بیان دینے سے معذرت کرلی ، اسلام آباد پولیس کی تفتیشی ٹیم کے رکن پنجاب کے شہر سرگودھا میں بھی موجود ہیں جہاں رضوانہ کا گھر ہے، لاہور جہاں رضوانہ زیر علاج ہے وہاں بھی تفتیشی ٹیم کے رکن موجود ہیں،
طالبہ کے ساتھ جنسی تعلق،حمل ہونے پر پرنسپل نے اسقاط حمل کروا دیا
ویڈیو بنا کر ہراساں کرنے کے ملزم کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ
ناکے پر کیوں نہیں رکے؟ پولیس اہلکار نے شہری پر گولیاں چلا دیں
بارہ سالہ بچی کی نازیبا ویڈیو بنانے والا ملزم گرفتار
واقعہ کا اسلام آباد پولیس نے مقدمہ درج کر لیا
ابتدائی طور پر بچی کے زخم پرانے ہیں تاہم حتمی فیصلہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر ہوگا
پولیس نے بچی اور اسکے والد کا بیان ریکارڈ کر لیا
میری اہلیہ سخت مزاج ہے لیکن اس نے مارپیٹ نہیں کی ہے
وزیراعظم نے کہا ہے کہ بچی کوعلاج کی بہترین سہولیات کی فراہم کی جائیں
واضح رہے کہ تشدد کا شکار 14 سالہ گھریلو ملازمہ رضوانہ کا تعلق سرگودھا سے ہے تشدد کا واقعہ علاقہ تھانہ ہمک اسلام آباد میں پیش آیا ، بچی کو مضروب حالت میں اس کی والدہ اسلام آباد سے واپس سرگودھا لیکر آئی،